شوکت صدیقی برطرفی کیس :فیض حمید کو پارٹی بنانے کی یقین دہانی، سماعت کل تک ملتوی

شوکت صدیقی برطرفی کیس :ادارے برے نہیں ہوتے لوگ برے ہوتے ہیں، عدالت
کیپشن: Shaukat Siddiqui dismissal case: Institutions are not bad, people are bad, court

ایک نیوز: سپریم کورٹ میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے معزول جج شوکت صدیقی برطرفی کیس کی براہ راست سماعت کل تک ملتوی کردی گئی ہے۔ عدالت نے فیض حمید سمیت دیگر افراد کو فریق بنانے کے لیے فریقین کو کل تک کی مہلت دی ہے۔ سپریم کورٹ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ کیس کی سماعت کے دوران کچھ شخصیات پر الزامات لگائے گئے جو فریق نہیں، کیس میں جن پر الزامات عائد کیے گئے ان کو فریق بنایا جانا ضروری ہے، جو فریق نہیں وہ اپنا مؤقف عدالت کے سامنے کیسے رکھے گا؟ سردیوں کی چھٹیوں کے باعث بنچ پیر سے میسر نہیں ہو گا، اس لیے کیس کی سماعت کو کل تک ملتوی کیا جاتا ہے۔

تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نےکیس کی براہ راست سماعت کی۔ 

عدالتی کارروائی سپریم کورٹ کی ویب سائٹ اور یوٹیوب پر براہ راست دکھائی جا رہی ہے۔ شوکت عزیز صدیقی کی جانب سے وکیل حامد خان عدالت میں پیش ہوئے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا حکومت درخواست کی مخالفت کرے گی؟ وفاقی حکومت نے شوکت عزیز صدیقی کی درخواست کے قابل سماعت ہونے پر اعتراض کر دیا۔

دوران سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بینچ کی تبدیلی پر وضاحت کر دی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ افسوس کی بات ہے آج کل ہر کوئی فون اٹھا کر صحافی بنا ہوا ہے، پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کی روشنی میں یہ بینچ تشکیل دیا، پہلے اس بینچ میں کون کون سے ججز تھے؟

حامد خان نے بتایا کہ سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے کیس سنا، بینچ میں جسٹس سردار طارق مسعود ،جسٹس اعجاز الاحسن ، جسٹس مظہر عالم میاں اور جسٹس سجاد علی شاہ شامل تھے۔ 

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جسٹس سردار طارق اور جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا ہم اس بینچ میں نہیں بیٹھنا چاہتے، باقی ججز ریٹائرڈ ہو چکے ہیں، میں نے بنچ سے کسی کو نہیں  ہٹایا، بینچوں کی تشکیل اتفاق رائے یا جمہوری انداز میں ہو رہی ہے، موبائل ہاتھ میں اٹھا کر ہر کوئی صحافی نہیں بن جاتا، صحافی کا بڑا رتبہ ہے، آج کل جمہوریت کا زمانہ ہے۔

حامد خان نے کہا کہ اس وقت جمہوریت مشکل حالات میں ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپکی معاونت درکار رہے گی، جمہوریت چلتی رہے گی، آپ نے اسے آگے لے کر چلنا ہے۔ چیف جسٹس نے حامد خان سے استفسار کیا کہ آپ کو اس بنچ کے کسی رکن پر اعتراض تو نہیں ہے؟حامد خان نے بتایا کہ نہیں اس بنچ کے کسی رکن پر اعتراض نہیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آج کل ویسے بھی اعتراض کا زمانہ ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ملک جمہوریت کی طرف گامزن ہے تو سپریم کورٹ میں بھی جمہوریت آرہی ہے، کیا شوکت عزیز صدیقی کی تقریر تحریری تھی؟ 

حامد خان نے بتایا کہ شوکت عزیز صدیقی نے فی البدیہہ تقریر کی تھی۔ 

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ شوکت عزیز صدیقی کو مرضی کا فیصلہ کرنے کا کس نے کہا تھا؟ حامد خان نے بتایا کہ جنرل فیض حمید ایک برگیڈیئر کیساتھ شوکت عزیز صدیقی کے گھر گئے تھے۔ چیف جسٹس نےاستفسار کیا کہ جس شخص پر الزام لگا رہے ہیں انہیں فریق کیوں نہیں بنایا گیا؟ حامد خان نے جواب دیا کہ شخصیات ادارے کی نمائندگی کر رہی تھیں اس لیے فریق نہیں بنایا، فیض حمید کو بطور گواہ سپریم جوڈیشل کونسل میں بلانا تھا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یا کسی پر الزام نہ لگائیں یا پھر جن پر الزام لگا رہے انہیں فریق بنائیں۔

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے برطرف کیے جانے والے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے مقدمے پر سماعت کرتے ہوئے کہا کہ ’ادارے برے نہیں ہوتے، لوگ برے ہوتے ہیں۔‘

شوکت عزیز صدیقی کے وکیل حامد خان نے شوکت صدیقی کی راولپنڈی بار کے سامنے کی جانے والی تقریر کا سکرپٹ پڑھ کر سنایا، جس میں آئی ایس آئی پر کچھ الزامات عائد کیے گئے تھے۔ شوکت صدیقی کی طرف سے شوکاز نوٹس آئی ایس آئی کے سابق سربراہ فیض حمید کا بھی نام لیا گیا تھا کہ انھوں نے انھیں من پسند فیصلہ کرنے کا کہا تھا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ شوکت صدیقی نے جن افسران پر الزام لگائے ہیں انھیں بغیر سنے ان کے خلاف کارروائی آگے نہیں بڑھا سکتے۔ آپ ان افراد کو پارٹی بنائیں یا نہ بنائیں مگر بغیر کسی کو نوٹس دیے ہم نہیں سکتے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اگر آپ انھیں پارٹی نہیں بنانا چاہتے ہیں تو پھر سپریم جوڈیشل کونسل کا بظاہر درست تھا۔ انھوں نے کہا کہ ’فیشن چل گیا ہے، اداروں کو بدنام کرنے کا۔‘

حامد خان نے کہا کہ ہم چاہتے تھے کہ ان افراد کو سپریم جوڈیشل کونسل کے سامنے پیش کیا جائے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اب وہ وقت گزر گیا ہے اور اب بتائیں کہ اب پارٹی بناتے ہیں یا نہیں؟ حامد خان نے کہا جیسے آپ کہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم آپ کا کیس نہیں لڑ سکتے یہ فیصلہ آپ نے کرنا ہے۔ حامد خان نے کہا کہ اگر وہ افراد سامنے آنا چاہتے تو وہ خوش آمدید کہیں گے۔

دوران سماعت ایڈووکیٹ حامد خان نے شوکت عزیز صدیقی کی راولپنڈی بار میں کی گئی تقریر کا متن پڑھا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اسوقت اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کون تھے؟ حامد خان نے بتایاکہ اس وقت چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ انور کانسی تھے، شوکت عزیز صدیقی پر 4 ریفرنسز بنائے گئے، ایک ریفرنس یہ بنایا کہ سرکاری رہائیش گاہ پر شوکت عزیز صدیقی نے زائد اخراجات کیے، ہم نے کونسل میں درخواست دی کہ ججز کی سرکاری رہائش گاہوں پر ہونے ولے اخراجات کی مکمل تفصیل دیں، کونسل نے جواب دیا جو مانگ رہے ہیں وہ غیر متعلقہ ہے، ایک ریفرنس 2017 کے دھرنے کی بنیاد پر بنایا گیا، جس میں  شوکت عزیز صدیقی نے بطور جج اسلام آباد ہائیکورٹ ریمارکس دیے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں عدالتی ریمارکس پر ریفرنس بنایا گیا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ شوکت صدیقی کے خلاف شکایات کنندگان کون تھے؟ حامد خان نے جواب دیا کہ رہائش گاہ پر زائد اخراجات کے شکایت کنندہ سی ڈی اے ملازم انور گوپانگ تھے۔ ایک ریفرنس ایڈووکیٹ کلثوم اور ایک سابق ایم این اے جمشید دستی نے بھیجا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے بتایا کہ جمشید دستی کس سیاسی جماعت کا حصہ تھے؟ مجھے کنفرم نہیں لیکن شاید آزاد حیثیت میں ہوں گے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ یعنی  آپ کہہ رہے ہیں کہ جمشید دستی مکمل آزاد نہیں تھے۔ حامد نے بتایا کہ راولپنڈی بار میں کی گئی تقریر پر جوڈیشل کونسل نے خود نوٹس لیا۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ جوڈیشل کونسل کو کیسے پتا چلا کہ کسی جج نے تقریر کی ہے؟ حامد خان نے بتایا کہ ایجنسیوں نے شکایت کی تھی۔ چیف جسٹس نے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ریکارڈ دیکھ کر بتائیں وہاں کیا لکھا ہوا ہے۔ حامد خان نے بتایا کہ ریکارڈ میں 22 جولائی 2018 کا رجسٹرار کا ایک نوٹ موجود ہے۔

عدالت نے فیض حمید سمیت دیگر افراد کو فریق بنانے کے لیے فریقین کو کل تک کی مہلت دے دی۔ سپریم کورٹ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ کیس کی سماعت کے دوران کچھ شخصیات پر الزامات لگائے گئے جو فریق نہیں، کیس میں جن پر الزامات عائد کیے گئے ان کو فریق بنایا جانا ضروری ہے، جو فریق نہیں وہ اپنا مؤقف عدالت کے سامنے کیسے رکھے گا؟ سردیوں کی چھٹیوں کے باعث بنچ پیر سے میسر نہیں ہو گا، اس لیے کیس کی سماعت کو کل تک ملتوی کیا جاتا ہے۔