بس کنڈکٹر جانی واکر ٹاپ کامیڈین کیسے بنا ؟

johny walker
کیپشن: johny walker
سورس: google

ایک نیوز : برصغیر میں مقبول بالی ووڈ کے ٹاپ اسٹار کامیڈین جانی واکر کی آج97 ویں سالگرہ ہے ۔ بس کنڈکٹری کے دوران بولے جانے والے دل چسپ مکالمے انہیں فلم کی جادو نگری میں لائے۔

  جانی واکر کو بطور اداکار اپنے خوابوں کو پورا کرنے کے لئے بس کنڈکٹر کی نوکری بھی کر نی پڑی تھی۔ لیکن اسی معمولی نوکری نے ان کے حالات بدلے۔

 جانی واکر مدھیہ پردیش کے اندور شہر میں 11نومبر1926کو  پیدا ہوئے۔ ان کا حقیقی نام بد ر الدین جمال الدین قاضی عرف جانی تھا۔ 

1942میں ان کا خاندان ممبئی آ گیا ۔ یہاں اپنی عملی زندگی کا آغاز انہوں نے  بس کنڈکٹر کی نوکری  سے کیا۔

ان کا بس کنڈکٹری کرنے کا انداز بھی کافی دلچسپ تھا۔ وہ اپنے خاص انداز میں آ واز لگاتے ’’ماہم والے پسنجر اتر نے کو ریڈی۔۔ ہوجاؤ لیڈیز لوگ پہلے‘‘۔

 فلم اسٹوڈیو کی لوگ بھی ان کے روٹ کی بس پر سفر کرتے تھے اور ان کی چلت پھرت سے جانی واکر بہت متاثر ہوئے ۔اسی دوران ان کی ملاقات فلمی دنیا کے مشہور ویلین این اے انصاری اور کے آ صف کے سکریٹری رفیق سے ہوئی۔

تقریباً 7۔8 مہینے کی جدوجہد کے بعد جانی واکر کو فلم ’’ آ خری پیمانے‘‘ میں ایک چھوٹا سا رول ملا۔ اس فلم میں انہیں 80روپئے اجرت ملی جبکہ بطور بس کنڈکٹر انہیں پورے مہینے کے لئے صرف 26روپئے ہی ملا کرتے تھے۔

 تاہم بس میں ایک دفعہ  جانی واکر کی ملاقات اپنے دور کےممتاز اداکار بلراج ساہنی سے ہوئی جو فیصلہ کن ثابت ہوئی۔

بلراج ساہنی جو جانی واکر سے متاثر تھے  گرودت سے  سفارش کرکے انہیں  فلم ’بازی میں  کام دلوادیا۔

سال 1951میں ریلیز ہونے والی فلم بازی کے بعد جانی واکر  ایک مستند کامیڈین بن چکے تھے۔ فلم کی کامیابی کے بعد گرودت نے خوش ہوکر انہیں تحفے میں ایک کار دی۔

اس کے بعد انہوں نے گرودت کی کئی فلموں میں کام کیا جن میں آر پار، مسٹر اینڈ مسز 55،پیاسا، چودھویں کا چاند، کاغذ کے پھول جیسی سپر ہٹ فلمیں شامل ہیں۔

جانی واکر نے ٹیکسی ڈرائیور، دیو داس، نیا انداز،چوری چوری، مدھومتی، مغل اعظم، میرے محبوب،بہو بیگم، میرے حضور جیسی کئی سپر ہٹ فلموں میں اپنی مزاحیہ اداکاری سے ناظرین کو مسحور کردیا ۔

1956میں گرودت کی فلم سی ا ئی ڈی میں ان پر فلمایا نغمہ ’ اے دل ہے مشکل جینا یہاں،ذرا ہٹ کے ذرا بچ کے یہ ہے ممبئی میری جاں‘ نے  بھارت میں دھوم مچا دی تھی۔ 

اس بعد ہر فلم میں ان پر ایک نغمہ ضرور فلمایا جا تا تھا  کیونکہ فائننسر اور پروڈیوسر کی بھی یہ شرط ہوتی تھی کہ فلم میں جانی واکر پر ایک گیت ضرور ہونا چاہئے۔

ان پر فلمائے نغمے فلم نیا دور کا ’’ میں بمبئی کا بابو‘‘ مدھومتی کا ’’جنگل میں مور ناچا کسی نے نہ دیکھا‘‘ فلم مسٹر اینڈ مسز 55 کا ’’ جانے کہاں میرا جگر گیا جی‘‘ فلم پیاسا کا ’’سر جو تیرا چکرائے یا دل ڈوبا جائے‘‘ فلم چودھویں کا چاند کا نغمہ ’’میرا یار بنا ہے دولہا ‘‘ بھی ناظرین میں کافی مقبول ہوئے۔

 جانی واکر پر فلمائے گئے زیادہ تر نغمے محمد رفیع کی آ واز میں ہیں لیکن فلم ’بات ایک رات کی‘ میں ان پر فلمایا نغمہ ’’کس نے چلمن سے مارا نظارہ مجھے‘‘ میں منا ڈے نے اپنی آواز دی تھی۔

جانی واکر نے تقریباً12۔10فلموں میں بطور ہیرو بھی کام کیا ہے ۔بطور ہیرو ان کی پہلی فلم پیسہ یہ پیسہ‘ تھی جس میں انہوں نے تین مختلف کردار ادا کئے تھے۔ اس کے بعد ان کے نام پر فلم ڈائرکٹر وید موہن نے 1967میں جانی واکر‘ بنائی تھی۔

سال1958 میں منظر عام پر آنے والی فلم مدھو متی کے لئے انہیں سب سے بہترین معاون اداکار کا فلم فیئر ایوارڈ بھی دیا گیا

۔اس کے علاوہ 1968میں ریلیز فلم شکار کے لئےانہیں بہترین مزاحیہ اداکار کے فلم فیئر ایوار ڈ سے نوازا گیا۔

جانی واکر کی شادی اس وقت کی معروف اداکارہ شکیلہ کی بہن نور جہاں سے ہوئی۔ ان سے انہیں تین بیٹیاں اور تین بیٹے ناصر خان، ناظم قاضی اور کاظم قاضی ہوئے۔

جانی واکر نے تقریباً پانچ دہائیوں پر مشتمل اپنے طویل فلمی کیریئر میں 300 سے زائد فلموں میں کام کیا۔ اپنے خاص اور دلفریب انداز سےناظرین کو مسحور کرنے والا یہ عظیم مزاحیہ اداکار29جولائی 2003کو اس دنیا کو الوداع کہہ گیا۔