پارلیمانی کمیٹیوں کی تشکیل کیلئے سپیکر قومی اسمبلی کی مشاورت 

پارلیمانی کمیٹیوں کی تشکیل کیلئے سپیکر قومی اسمبلی کی مشاورت 
کیپشن: پارلیمانی کمیٹیوں کی تشکیل کیلئے سپیکر قومی اسمبلی کی مشاورت 

ایک نیوز:پبلک اکاونٹس کمیٹی سمیت دیگر پارلیمانی کمیٹیوں کی تشکیل کیلئے سپیکر قومی اسمبلی کی پارلیمانی رہنماؤں سے مشاورت جاری ہے ۔

ذرائع کے مطابق پارلیمانی کمیٹیوں کی تشکیل کے حوالے سے ابھی تک پیش رفت نہ ہو سکی۔قومی اسمبلی میں کمیٹیوں کی تشکیل سے متعلق تحریک بھی پیش نہ کی جا سکی۔سب سے اہم پبلک اکاونٹس کمیٹی کی سربراہی کا معاملہ ڈیڈ لاک کا شکار ہے ۔

ذرائع کے مطابق اپوزیشن آج بھی پی اے سی کی سربراہی پر اصرار کرتی رہی۔قومی اسمبلی کے قاعدہ 202 کے تحت 29 رکنی پی اے سی تشکیل دی جاتی ہے۔23 اراکین قومی اسمبلی سے اور 6 سینیٹ سے ارکان لیے جاتے ہیں۔کمیٹی کی سربراہی  قومی اسمبلی  کا رکن کرتا ہے۔کمیٹی کے چئیرمین کا انتخاب کمیٹی اراکین ووٹنگ کے ذریعے کرتے ہیں۔سیکرٹری قومی اسمبلی چئیرمین کا الیکشن کراتا ہے۔قواعد یا قانون میں کہیں ذکر نہیں کہ پی اے سی کی سربراہی اپوزیشن کو دی جائے گی۔میثاق جمہوریت کے تحت ن لیگ اور پیپلز پارٹی نے کمیٹی کی سربراہی اپوزیشن لیڈر کو دینے پر اتفاق کیا تھا۔تحریک انصاف کے دور حکومت میں اپوزیشن لیڈر ہونے کے باوجود شہباز شریف کو پی اے سی کی سربراہی نہیں ملی تھی ۔انکی جگہ رانا تنویر حسین کمیٹی کے چئیرمین بنے۔ن لیگ کی حکومت آنے کے بعد نور عالم خان کو چئیرمین پی اے سی بنایا گیا۔

ذرائع قومی اسمبلی کے مطابق حکمران اتحاد کمیٹی میں اپنے اراکین زیادہ ہونے کی بنیاد پر چئیرمین پی اے سی نامزد کر سکتا ہے۔سپیکر کسی رکن کو چئیرمین نامزد نہیں کرتا۔پی اے سی پارلیمنٹ کی سب سے اہم کمیٹی، جو حکومت کا احتساب کرتی ہے۔آڈیٹر جنرل کی بدعنوانیوں سے متعلق تمام رپورٹس پی اے سی میں ہی زیر بحث آتی ہیں ہے۔پی اے سی سب سے بااختیار کمیٹی، جو کسی کو بھی طلب کر سکتی ہے۔

پیپلز پارٹی بھی آج میدان میں کود پڑی، چئیرمین پی اے سی کے لیے خورشید شاہ اور نوید قمر کے نام سامنے آ گئے۔سپیکر اخلاقی اور سیاسی طور پر عہدہ اپوزیشن کو دینا چاہتے ہیں، قانون اور آئین میں ایسی کوئی پابندی نہیں۔