الیکشن کمیشن کو وزیراعظم کیخلاف کارروائی سے روک دیا گیا

الیکشن کمیشن کو وزیراعظم کیخلاف کارروائی سے روک دیا گیا
اسلام آباد: اسلام آباد ہائیکورٹ نے الیکشن کمیشن کو وزیر اعظم عمران خان کے خلاف کارروائی سے روکتے ہوئے آئندہ سماعت پر قانونی نکات پر دلائل طلب کرلئے ۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا ہے کہ وزیراعظم عمران خان اور اسد عمر کے خلاف حتمی کارروائی نہ کریں، الیکشن کمیشن کسی کو آئندہ سماعت تک نا اہل کرے گا اور نہ ہی جرمانہ عائد کیا جائے گا۔
اسلام آباد ہائی ہائی کورٹ میں وزیر اعظم عمران اور وفاقی وزیر اسد عمر کی الیکشن کمیشن کے نوٹس کے خلاف درخواست پر سماعت ہوئی، جسٹس عامر فاروق نے کیس کی سماعت کی جب کہ اٹارنی جنرل خالد جاوید خان عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔ جسٹس عامر فاروق نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا الیکشن کمیشن آرڈیننس کو ختم کر سکتا ہے۔
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ الیکشن کمیشن کے پاس آرڈیننس کو کالعدم قرار دینے کا اختیار نہیں۔ عدالت نے استفسار کیا کہ اگر الیکشن کمیشن نے 218(3) کے تحت کوڈ آف کنڈکٹ بنایا تو کیا آرڈیننس کے ذریعے اس کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ اس نوعیت کا معاملہ سپریم کورٹ میں بھی زیر بحث آیا تھا۔
اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ کا فیصلہ پڑھ کرسنایا اور کہا کہ وزیر اعظم سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہوئے غیر جانبدار نہیں رہ سکتا، پارلیمنٹری فارم آف گورنمنٹ میں سٹار پرفارمر کو کیسے الگ کیا جا سکتا ہے، ہمارے آئین کی ہر گز یہ اسکیم نہیں، یہ ہو سکتا کہ الیکشن کمیشن یقینی بنائے کہ آپ کسی گورنمنٹ اسکیم کا اعلان نہیں کر سکتے، یا الیکشن کمیشن یہ کہ سکتا ہے کہ کوئی بھی وزیر سرکاری گاڑی استعمال نا کرے، وزیر اعظم نے تحریری ہدایات دی تھیں کہ میں اپنی جیب یا پارٹی اخراجات کروں گا، ہم نے کبھی نہیں سنا کبھی ایسا ہوا کہ الیکشن کمیشن کہے کہ وزیراعظم کو سوات جانے سے روک دیا گیا۔
اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کہا کہ الیکشن کمیشن ڈیڈی کی طرح ایکٹ کر رہا ہے، ہیڈ آف گورنمنٹ کو نہیں روکا جا سکتا ہیڈ آف اسٹیٹ کو روکا جا سکتا، الیکشن کمیشن وزیر اعظم کو نوٹس اور جرمانہ کر رہا ہے اگلہ مرحلہ نااہلی کا ہے کیسے وہ یہ کر سکتے ہیں۔
اٹارنی جنرل نے استدعا کرتے ہوئے موقف پیش کیا کہ الیکشن کمیشن کو مزید کاروائی سے عارضی طور پر روکا جائے، نوٹس آتا ہے کہ آج منگورہ میں حاضر ہو جائیں وکیل وقت لینے جاتا ہے جرمانہ کردیا جاتا ہے، پارلیمنٹری فارم آف گورنمنٹ میں یہ کیسے ہو سکتا ہے۔
اٹارنی جنرل نے بتایا کہ آصف علی زرداری صدر مملکت تھے تو لاہور ہائیکورٹ نے کہا تھا انہیں پارٹی عہدہ چھوڑنا ہوگا، صدر اور گورنرز پارٹی عہدہ نہیں رکھ سکتے وہ نیوٹرل ہوتے ہیں، قوم کے ٹیکس سے پیسے سے کوئی بھی جماعت اپنی مہم نہیں چلا سکتی، وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر اپنی جماعتوں کے ایکٹو رکن ہوتے ہیں، وزیراعظم کا معلوم ہوتا ہے کہ وہ سوات جارہے ہیں تو الیکشن کمیشن فوری کہتا وہاں نہ جاو، الیکشن کمیشن ڈیڈی کی طرح ایکٹ کررہا ہے، خان صاحب نہ تو سیاسی جماعت ہیں نہ امیدوار مگر انہیں صبح شام نوٹس مل رہے ہیں، الیکشن کمیشن وزیر اعظم کو جرمانے کررہا ہے، اگلا مرحلہ نااہلی کا ہے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ کیا وزیراعظم کی نااہلی کے لیے نوٹس جاری کردیا ہے۔ جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ابھی تک ایسا کوئی نوٹس جاری نہیں کیا گیا، الیکشن کمیشن روز دو تین نوٹس وزیراعظم کو ملتے ہیں، منگورہ میں صبح نوٹس کرتے ہیں اور کہتے ہیں شام کو پیش ہوجائیں، الیکشن کمیشن اس نتیجے پر کیسے پہنچا کہ آرڈیننس کا اطلاق نہیں ہوتا، الیکشن کمیشن نے سننا بھی ضروری نہیں سمجھا اور آرڈیننس کا آپریشن معطل کردیا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے حکم دیا کہ وزیراعظم عمران خان اور اسد عمر کے خلاف حتمی کارروائی نہ کریں، الیکشن کمیشن کسی کو آئندہ سماعت تک نہ ہی نا اہل کرے گا اور جرمانہ بھی عائد نہیں کیا جائے گا۔ الیکشن کمیشن کو کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی نظر آئے تو نوٹس جاری کرے۔ عدالت نے آئندہ سماعت پر قانونی نکات پر دلائل طلب کرلئے، 6 اپریل کو کیس سماعت کے لیے دوبارہ مقرر کر دیا گیا۔