شوہر اپنی پہلی بیوی کو ساتھ رہنے کے لئے مجبور نہیں کر سکتا

Can’t compel the wife to live with Muslim Husband who has married again
کیپشن: Can’t compel the wife to live with Muslim Husband who has married again
سورس: google

  ایک نیوز نیوز:  بھارت کی ایک عدالت نے قراردیا ہے کہ پہلی بیوی کی مرضی کے خلاف دوسری شادی کرنے والا مسلمان مرد اپنی پہلی بیوی کو ساتھ رکھنے پر مجبور کرنے کے لئے عدالتی حکم جاری نہیں کرا سکتا۔ 

الہ آباد ہائی کورٹ نے یہ تبصرہ ایک معاملہ کی سماعت کے دوران کیا۔ جسٹس سوریہ پرکاش کیسروانی اور جسٹس راجندر کمار  پرمشتمل  بنچ نے یہ  ریمارکس ایک درخواست گذار کے کیس کے فیصلے کے دوران کئے ۔  درخواست گذار نے فیملی کورٹ کے فیصلہ کو چیلنج کیا گیا تھا، جس میں اس کے ازدواجی حقوق کے دعوے کو منسوخ کر دیا گیا تھا۔

بنچ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ قرآن پاک کے مطابق ایک مرد زیادہ سے زیادہ چار خواتین سے شادی کر سکتا ہے لیکن اگر اسے ڈر ہو کہ وہ ان کے ساتھ انصاف نہیں کر سکے گا تو وہ صرف ایک ہی شادی کر سکتا ہے۔

الہ آباد ہائی کورٹ کا کہنا تھا کہ عرضی گزار نے اپنی پہلی بیوی کی اجازت اور مرضی کے بغیر دوسری عورت سے شادی کی جو پہلی بیوی کے ساتھ زیادتی کے مترادف ہے۔ عدالت کا کہنا تھا کہ اگر ایک مسلمان شوہر اپنی بیوی اوربچوں کی کفالت اور ان کے ساتھ ''عدل" نہیں کرسکتا تو قرآن کے حکم کے مطابق اسے دوسری شادی نہیں کرنی چاہئے۔عدالت نے اس سلسلے میں باضابطہ قرآن کے سورہ النساء (سورہ نمبر 4) کی آیت نمبر 3 کا حوالہ دیا۔

اس آیت میں کہا گیا ہے: "اگر تم یتیموں کے ساتھ بے انصافی کرنے سے ڈرتے ہو تو جو عورتیں تم کو پسند آئیں ان میں سے دو دو، تین تین، چار چار سے نکاح کرلو۔ لیکن اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ ان کے ساتھ عدل نہ کر سکو گے تو پھر ایک ہی بیوی کرو، یا ان عورتوں کو زوجیت میں لاو جو تمہارے قبضے میں آئی ہیں۔ بے انصافی سے بچنے کے لیے یہ زیادہ قرین ِ صواب ہے۔"

الہ آباد ہائی کورٹ نے یہ حکم عزیزالرحمان اور حمیدالنسا کے کیس میں سنایا۔ دونوں کی مئی 1999میں شادی ہوئی تھی اور ان کے چار بچے ہیں۔ عزیزالرحمان نے بعد میں ایک دوسری خاتون سے بھی شادی کرلی اور ان سے بھی کئی بچے ہیں۔

عدالت کے فیصلے کے مطابق عزیزالرحمان نے دوسری بیوی اور بچوں کے بات پہلی بیوی سے چھپائے رکھی اور بعد میں جب راز کھلا تو دوسری شادی کے بارے میں کوئی وضاحت کرنے میں ناکام رہے۔ حمیدالنساء اس کے بعد ان کا گھر چھوڑ کر چلی گئیں اور اپنے 93 سالہ والد کے ساتھ رہ رہی ہیں۔

عزیزالرحمان نے سن 2015 میں اترپردیش کی ایک فیملی کورٹ سے رجوع کیا اور اپنے ازدواجی تعلقات کو بحال کرانے کے لیے حکم دینے کی درخواست کی۔ وہ چاہتے تھے کہ عدالت ان کی پہلی بیوی کو ان کے ساتھ رہنے کا حکم دے۔