بلوچستان کے جنگجو گروپ پاکستان اور ایران کیلئے دردسر، برطانوی جریدے کا انکشاف

بلوچستان کے جنگجو گروپ پاکستان اور ایران کیلئے دردسر، برطانوی جریدے کا انکشاف
کیپشن: Trouble for Pakistan and Iran's militant groups in Balochistan, British Journal reveals

ویب ڈیسک: پاکستان میں دہشت گردی کے حوالے سے ایک تجزیے میں برطانوی جریدے دی اکنامسٹ نے لکھا ہے کہ پاکستان کے صوبے بلوچستان میں سرگرم دہشت گرد گروپ پاکستان اور ایران دونوں ہی کے لیے دردِ سر ہیں۔ برطانوی جریدے کے تجزیے کے مطابق عسکریت پسندی سے موثر طور پر نپٹنے کے لیے پاکستان اور ایران کو جامع مذاکرات کرنا ہوں گے تاکہ غلط فہمیاں دور ہوں اور حقیقی اعتماد بحال ہو۔

برطانوی جریدہ لکھتا ہے کہ ایران اور پاکستان کے تعلقات تاریخ کے تناظر میں خوش گوار رہے ہیں۔ 1947 میں پاکستان کو تسلیم کرنے والا پہلا ملک ایران ہی تھا۔ تجارت اور دفاع کے معاملات میں دونوں ممالک بہت حد تک مل جل کر کام کرتے ہیں۔

پاک ایران سرحدی علاقوں میں بلوچ عسکریت پسند گروپوں کی کارروائیاں دونوں حکومتوں کے لیے شدید پریشانی کا باعث ہیں۔ متعدد گروپ مل کر کام کرتے ہیں۔ حال ہی میں معاملات زیادہ سنگین ہوگئے ہیں۔ 16 جنوری کو ایران نے مغربی پاکستان میں میزائل داغے۔ اس کا کہنا تھا کہ سنی عسکریت پسند گروپ جیش العدل کے جنگجوؤں کو نشانہ بنارہا ہے جو اس کی نظر میں دہشت گرد ہیں۔

اس کے بعد پاکستان نے مشرقی ایران میں میزائل داغے۔ اس کا کہنا تھا کہ وہ ایرانی سرزمین پر دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنارہا ہے۔

ان کارروائیوں کے بعد دونوں ممالک نے اپنے اپنے سفیر کو واپس بلایا۔ معاملات اچانک بگڑتے دکھائی دینے لگے مگر پھر دونوں ممالک نے معاملات کو سفارت کاری کی سطح پر سلجھانے کا ڈول ڈالا۔ 29 جنوری کو اسلام آباد میں ایران اور پاکستان کے وزرائے خارجہ نے ملاقات کی اور اس عزم کا اظہار کیا کہ دونوں ممالک اپنی اپنی سرزمین پر عسکریت پسند گروپوں کے خلاف لڑیں گے۔ پاک ایران سرحدی علاقوں میں خصوصی طور پر اور بلوچستان میں عمومی طور پر دہشت گردی جاری رہی ہے۔

بلوچستان چونکہ جنوبی ایشیا کے لیے گیٹ وے کی سی حیثیت رکھتا ہے اس لیے اس پر بیرونی قوتیں ہر دور میں حملہ آور ہوتی رہی ہیں۔ مکران کا ساحل بیرونی تاجروں اور حملہ آوروں کا مشاہدہ کرتا رہا ہے۔

بلوچستان اس اعتبار سے غیر معمولی علاقہ ہے کہ یہاں بیرونی لوگ ہمیشہ آباد ہوتے آئے ہیں۔ جب عربوں نے اس خطے میں قدم رکھا تو یہاں کے لوگ مشرف بہ اسلام ہوئے۔ عربوں کی آمد سے اس خطے کی تجارتی اور دفاعی اہمیت بڑھ گئی۔

انیسویں اور بیسویں دہائی میں برطانیہ اور ایران نے بلوچستان کو آپس میں بانٹ لیا۔ اس کا کچھ حصہ افغانستان کو بھی دے دیا گیا۔ ایران نے مغربی بلوچستان کو 1928 میں اپنا باضابطہ حصہ بنالیا۔ 1947 میں برطانوی راج ختم ہوا، پاکستان قائم ہوا تو مشرقی بلوچستان پاکستان کا حصہ بن گیا۔

ایک پورے کے پورے خطے کی یوں بندر بانٹ کے جو خطرناک نتائج برآمد ہوسکتے تھے وہ ہوئے۔ بلوچ قوم پرستوں میں عمومی تصور یہ ہے کہ پنجاب کے لوگوں نے انہیں دیوار سے لگاکر غرب اور پس ماندگی کے گڑھے میں دھکیل دیا ہے۔ یہی سبب ہے کہ 1947 سے اب تک وہ وفاقی حکومت کے خلاف لڑتے آئے ہیں۔

1970 کی دہائی میں بلوچستان کے حالات غیر معمولی خرابی سے دوچار ہوئے اور تشدد کے نتیجے میں کم و بیش 8 ہزار افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ 2000 کے عشرے میں بلوچستان میں ایک بار پھر غیر معمولی تشدد کی لہر اٹھی جو کسی نہ کسی شکل میں اب تک جاری ہے۔ بلوچستان کے طول و عرض میں موجود عسکریت پسندوں نے فورسز اور عام شہریوں پر حملوں میں جدید ترین ہتھیار استعمال کرنا شروع کردیا ہے۔ اس کے نتیجے میں تشدد بھی بڑھا ہے اور ہلاکتیں بھی۔

چند برسوں کے دوران بلوچستان کے طول و عرض میں بلوچ عسکریت پسند گروپوں کے حملوں میں غیر معمولی رفتار سے اضافہ ہوا ہے اور ہلاکتوں کا دائرہ بھی وسیع تر ہوا ہے۔ 2022 میں کالعدم بلوچستان لبریشن آرمی نے صوبے کے کم از کم 6 شہروں میں منصوبہ بندی کے ساتھ دھماکے کیے جن کے نتیجے میں فورسز کو غیر معمولی جانی نقصان برداشت کرنا پڑا۔

جب پاکستانی فورسز جوابی کارروائیاں کرتی ہیں تو صوبے کے حالات پر اس کا گہرا اثر مرتب ہوتا ہے۔ فورسز کی جوابی کارروائیوں پر انسانی حقوق کے علم بردار گروپ شور مچاتے ہیں کہ بے قصور لوگ مارے جارہے ہیں۔ یہ گروپ پاکستانی حکومت پر بلوچ رہنماؤں کو بلا جواز اور غیر قانونی طور پر زیرِ حراست رکھنے کا الزام بھی عائد کرتے رہے ہیں۔ پاکستانی فورسز کی کارروائیوں سے بچنے کے لیے بہت سے بلوچ عسکریت پسند افغانستان چلے گئے ہیں اور وہاں سے حملے کرتے ہیں۔