سائفر کیس:عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی ضمانتیں مسترد

سائفر کیس:عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی ضمانتیں مسترد
کیپشن: سائفر کیس:ایف آئی اے نے دلائل نہ بھی دیئےتو آج فیصلہ کردوں گا،جج

ایک نیوز:سیکریٹ ایکٹ کے تحت قائم خصوصی عدالت نے سائفر کیس  میں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان اور وائس چیئرمین شاہ محمود کی درخواست ضمانت پر محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے ضمانتیں مسترد کردیں۔

تفصیلات کے مطابق خصوصی عدالت میں سماعت کے دوران پی ٹی آئی وکلا کی جانب سے عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی ضمانت کی ضمانت قبل از گرفتاری سےمتعلق درخواستوں پر  سماعت کے دوران معاون وکیل ایف آئی اے کی جانب استدعا کی گئی کہ اسپیشل پراسیکیوٹرز نے سپریم کورٹ میں پیش ہونا ہے لہٰذا سماعت 12 بجے مقرر کر دی جائے۔

پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ اسپیشل پراسیکیوٹرز نے خود کہا 10 بجے سماعت شروع کر لیں،فیس نہیں ملی تو ہمارا قصور نہیں ہے۔

جج ابوالحسنات نے معاون وکیل ایف آئی اے سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا ایک اسپیشل پراسیکیوٹر کو مدعو کر لیں، باقی بھی پہنچ جائیں گے۔

سیکریٹ عدالت کے جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے ایف آئی اے پراسیکیوٹر ذوالفقار نقوی کی سماعت 12 بجے کرنے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے پی ٹی آئی وکلا کو اسپیشل پراسیکیوٹرز کی غیر موجودگی میں دلائل دینے کی اجازت دیدی جبکہ اسپیشل پراسیکیوٹرز ذوالفقار نقوی اور رضوان عباسی کمرہ عدالت سے روانہ ہو گئے۔

پی ٹی آئی کے وکیل سلمان صفدر نے کہا سائفر کیس کی درخواست ضمانت پر زیادہ سے زیادہ 45 منٹ لوں گا جبکہ اسپیشل پراسیکیوٹرز کے معاون وکیل دوبارہ کمرہ عدالت پہنچ آئے اور سماعت میں وقفہ کرنے کی استدعا کی جس پر جج نے کہا جب آپ فری ہیں تو پی ٹی آئی وکلاء فری نہیں، درخواست ضمانت پر سماعت تو آج ہو گی۔

پی ٹی آئی کے وکیل سلمان صفدر نے کہا تین مختلف اسپیشل پراسیکیوٹرز موجود ہیں، ہمیں دلائل دینے کی اجازت دی جائے۔

فاضل جج نے ریمارکس دیئے کہ میں چاہتاہوں پی ٹی آئی وکلاء اور اسپیشل پراسیکیوٹرز دلائل دیں، میں تو درخواست ضمانت پر دلائل آج ضرور سنوں گا، آج پراسیکیوشن دلائل دے نہ دے، درخواست ضمانت پر فیصلہ میں محفوظ کر لوں گا۔

عمران خان کی درخواست ضمانت پر دلائل

چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی درخواست ضمانت پر دلائل دیتے ہوئے وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ سائفر کیس کا مدعی وزارت داخلہ کا افسر ہے، وزارت داخلہ نے سائفر کیس ہائی جیک کیا، سائفر واشنگٹن سے بھیجا گیا جس کی وصولی وزارتِ خارجہ نے کی،تاریخ میں اتنا کسی کو سیاسی انتقام کا نشانہ نہیں بنایا جتنا چیئرمین پی ٹی آئی کو بنایا گیا، چیئرمین پی ٹی آئی محب وطن ہیں، انہوں نے بطور وزیراعظم ملک کی خود مختاری کا سوچا، چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف 180 سے زائد کیسز درج کیےگئے، 140 سے زائد کیسز چیئرمین پی ٹی آئی کی گرفتاری سے قبل درج کیے گئے، ایف آئی اے نے جھوٹے مقاصد اور اتھارٹی کا غلط استعمال کرتے ہوئے سائفر کیس کا مقدمہ درج کیا، سائفر کیس کے مقدمے میں سب کے نام جلد بازی میں نامزد کیے گئے۔

وکیل سلمان صفدر کا کہنا تھا چیئرمین پی ٹی آئی پر سائفر کیس میں ذاتی مفادات لینے اور قومی سلامتی کو نقصان پہنچانے کا الزام ہے، مقدمے میں اعظم خان کا ذکر بھی ہے، کیا اعظم خان عدالت میں ہیں؟ کیا اعظم خان کی ضمانت منظور ہوئی؟

وکیل عمران خان نے کہا پراسیکیوشن نے ثابت کرنا ہے کہ سائفر کا اصلی اور نقلی ورژن کیا تھا، پراسیکیوشن نے ثابت کرنا ہےکہ چیئرمین پی ٹی آئی سے قومی سلامتی کو کیا نقصان ہوا، الزام لگایا گیا کہ چیئرمین پی ٹی آئی نے جان بوجھ کر سائفر کو اپنی تحویل میں رکھا، کیس ہے کہ سائفر غلط رکھا اور غلط استعمال کیا، ثابت کرنا پراسیکیوشن کا کام ہے، پراسیکیوشن کو یہ بھی ثابت کرنا ہےکہ سائفر کیس سے بیرون ملک طاقتیں مضبوط ہوئیں۔

وکیل سلمان صفدر کا کہنا تھا سائفر کیس سیکرٹ ایکٹ 1923 کے تحت درج ہوا، کمرہ عدالت میں موجود کوئی بھی 1923 میں پیدا نہیں ہوا ہوگا۔ جس پر اسپیشل پراسیکیوٹر شاہ خاور نے جملہ کسا کہ میرے والد 1923 میں پیدا ہوئے تھے، شاہ خاور کے جملے پر عدالت میں قہقہے لگ گئے۔

چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل کا کہنا تھا جو توشہ خانہ کیس کی کڑی میں پھنس گئے ہیں، انہیں پراسیکیوشن اندر رکھنا چاہتی ہے، ڈیڑھ سال سائفر کیس کی تحقیقات ہوئیں، مقدمہ تب بنایا جب چیئرمین توشہ خانہ کیس میں گرفتار ہوئے، سائفر کیس سیاسی انتقام لینے کے لیے بنایا گیا ہے، عمران خان ذمہ دار وزیراعظم رہے، چیئرمین پی ٹی آئی پاکستان کی سب سے بڑی جماعت کے سربراہ ہیں، انہوں نے 71 سال کی عمر میں جرم کی دنیا میں پیر رکھا۔

سائفر کیس بہت خطرناک بنایا گیا، چیئرمین پی ٹی آئی کوئی جاسوس نہیں: وکیل

اپنے دلائل میں وکیل سلمان صفدر کا کہنا تھا گزشتہ سماعت پر انسدادِ منشیات کے جج نے بطور ایڈمنسٹریٹیو جج سماعت کی، ایڈمنسٹریٹیو جج نے کہا یہ تو انسدادِ منشیات کی عدالت ہے، میں نے کہا چیئرمین پی ٹی آئی پر صرف منشیات کا کیس بنانا ہی رہ گیا ہے، منشیات کے کیس سے متعلق وکیل سلمان صفدر کے جملے پر عدالت میں قہقہے لگ گئے۔سلمان صفدر کا کہنا تھا قومی سلامتی کو نقصان پہنچانے والا چیئرمین پی ٹی آئی نے کوئی کام نہیں کیا، سائفر ہےکیا؟بےشک کوڈڈ دستاویز ہوتی جس میں کمیونیکیشن ہوتی ہے۔

جج الو الحسنات نے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ سائفر ہے کیا؟ اس پر ضرور بات کرنی ہے۔

وکیل سلمان صفدر نے کہا سائفر ٹریننگ شدہ افراد کے پاس آتا ہے، اسے عام انسان نہیں پڑھ سکتا۔

فاضل جج نے ریمارکس دیئے کہ وزارتِ خارجہ سائفر کی وصولی کرتا ہے، سائفر آیا اور کہاں گیا؟ سائفر کیس یہ ہے، سائفر کے 4 نقول آتے ہیں جن میں آرمی چیف، وزیراعظم شامل ہوتے ہیں۔

عمران خان کے وکیل سلمان صفدر نے کہا آج کسی کلبھوشن یا ابھی نندن کا کیس نہیں سنا جا رہا، سائفر کیس بہت خطرناک بنایا گیا، آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923 تو لگتا ہی نہیں ہے، چیئرمین پی ٹی آئی کوئی جاسوس نہیں، سابق وزیراعظم ہیں، دورانِ ٹرائل معلوم ہو گا کہ سائفر پر بیان سے ملک کو بچایا یا ملک دشمنوں کی سہولت کاری کی، جرم دشمن ملک سے حساس معلومات شیئر کرنا ہے، اس کیس میں سیکریٹ ایکٹ تو لاگو ہی نہیں ہوتا، ایف آئی اے سے تو کوئی امید نہیں، امید صرف عدالت سے ہے۔

جج ابو الحسنات ذوالقرنین نے ریمارکس دیے کہ دو کیٹیگریز کی لسٹ ہے، بہت اہم بات کرنے لگا ہوں، سیکشن 5، سیکشن 3 لاگو ہوتا ہے یا نہیں؟ سائفر کیس پورا اس پر ہے، اگر جرم ثابت ہوتا ہے تو سیکشن 3 اے لاگو ہوتی ہے، سائفر وزارتِ خارجہ سے وزیراعظم کو ملا لیکن سائفر ہے کہاں؟ وزیراعظم، ڈی جی آئی ایس آئی، آرمی چیف، وزارت خارجہ کا سائفر ڈاکیومنٹ الگ الگ ہے۔

قومی سلامتی کمیٹی میں متقفہ فیصلہ ہوا جس پر کابینہ نے سائفر کو ڈی کلاسیفائی کیا: سلمان صفدر

سلمان صفدر کا کہنا تھا سائفر کیس میں ملک دشمن عناصر سے کچھ بھی شیئر نہیں کیا گیا، قومی سلامتی کا معاملہ ہے، اگر رات گئے بھی بیٹھنا پڑے تو کوئی نہیں گھبرائے گا، اب معلوم کرنا ہے سائفر کیس سیکشن 3 اے کا ہے یا سیکشن 3 بی کا، پراسیکیوشن بتائے کہ بیرون ملک کس کو چیئرمین پی ٹی آئی کے سائفر پر بیان سے فائدہ ہوا، ایف آئی اے نے قانون کو توڑ مروڑ کر سائفر کیس بنایا جو قابل ضمانت ہے، سائفر کیس تو بنایا ہی بیرون ملک طاقتور کے ساتھ معلومات شیئر کرنے پر ہے، ایسا تو کچھ بھی نہیں۔

انہوں نے کہا کہ کیس بنتا ہے تو پوری کابینہ پربنتا ہے، فرد واحد پر نہیں بنتا، 7 مارچ 2022 کو سائفر وزارت خارجہ کو موصول ہوا، وزیراعظم ہاؤس کے آفیشلز کی ذمہ داری ہے کہ پتہ کریں سائفر کدھر گیا، سائفر کی ذمہ داری وزیراعظم کی نہیں بنتی، ان کے ماتحت کام کرنے والوں کی بنتی ہے، سائفر سامنے لانا جرم ہوتا تو 31 مارچ 2022 کو قومی سلامتی کمیٹی کے سامنے کیوں رکھا جاتا؟

انہوں نے کہا کہ سائفر کا مسئلہ قومی سلامتی کمیٹی میں رکھا گیا، فیصلہ ہوا غیر ملکی سفیرسے بات کی جائے گی، کمیٹی متفقہ طور پر فیصلہ کرتی ہے کہ سائفرکے نکات کیا ہیں، کابینہ سائفر کو ڈی کلاسیفائی کرتی ہے، کابینہ کے منٹس ریکارڈ پرموجود ہیں، ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ پر سپریم کورٹ میں سائفر کیس زیر بحث آیا، سپریم کورٹ نے تو نہیں کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف سائفرکیس درج کیا جائے، سائفر عوام کے سامنے نہیں رکھا گیا، اس کے نکات شئیر نہیں ہوئے، چیئر مین پی ٹی آئی پر الزام لگایا گیا کہ سائفر کو لہرایا گیا، وزارتِ خارجہ کے مطابق سائفر ان کے پاس موجود ہے، تاحال چیئرمین پی ٹی آئی سے سائفر کیس میں کچھ برآمد نہیں ہوا۔

 نام کیا ہے ملک دشمن کا جس کو سائفر سے فائدہ ہوا؟ وکیل چیئرمین پی ٹی آئی

وکیل عمران خان نے اپنے دلائل میں کہا مجھے بخدا معلوم نہیں تھا کہ چیئرمین پی ٹی آئی سائفر کیس میں گرفتار ہیں، عطا تارڑ نے ٹی وی پر کہا چیئرمین پی ٹی آئی سائفر کیس میں جوڈیشل ریمانڈ پر ہیں، عجیب بات ہے کہ سائفر کیس میں عطا تارڑ کو چیئرمین پی ٹی آئی کا معلوم ہے لیکن وکلا کو نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا سائفر کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی کی گرفتاری کا کیس تو بنتا ہی نہیں ہے، سائفر اس وقت چیئرمین پی ٹی آئی کے پاس نہیں ہے، پراسیکیوشن کو کیسے معلوم ہوا کہ سائفر اصلی تھا، اصلی سائفر لائیں۔

سلمان صفدر کا کہنا تھا چیئرمین پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی تعلیم یافتہ افراد ہیں، بیرون ملک سے پڑھے ہوئے، نام کیا ہے ملک دشمن کا جس کو سائفر سے فائدہ ہوا؟ بتائیں تو صحیح۔

بعد ازاں شاہ محمود قریشی کی جانب سے بابر اعوان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ایف آئی اے نے جو مقدمہ درج کرایا اس میں شاہ محمود قریشی کا ذکر تک نہیں ہے، شاہ محمود قریشی  کا اس کیس سے کوئی تعلق نہیں۔

شاہ محمود قریشی کے وکیل علی بخاری کا کہنا تھا اگرکوئی عدالت سے دستاویزگم جائے تو صرف جج کی انکوائری نہیں ہوتی، سائفر آیا، وزیرخارجہ نے مجھے بتایا تو ذمہ داری ہے کہ کابینہ کو بتایا جائے۔

جج ابو الحسنات نے پوچھا جب سائفر موصول ہوا تو پھر کدھر گیا؟

وکیل علی بخاری نے کہا کہ 12 دن کا شاہ محمود قریشی جسمانی کا ریمانڈ دیا گیا، آج بھی جیل میں ہیں، شاہ محمود قریشی کو ہتھکڑیاں لگاکریہاں لایا گیا تاکہ ذلیل کیا جا سکے۔

ایف آئی اے کے پراسیکیوٹرز کی جانب سے عدالت میں عمران خان کے بیان کی ویڈیو دکھائی گئی اور سابق پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کا بیان بھی پڑھ کر سنایا گیا۔

عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی درخواست ضمانت پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔جو کچھ دیر میں سنایا جائے گا۔

گزشتہ روز کی سماعت
گزشتہ روز 13 ستمبر کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ عدالت کے جج ابو الحسنات محمد ذوالقرنین نے چیئرمین پی ٹی آئی کا 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ ختم ہونے پر کیس کی سماعت کی، اس دوران ایف آئی اے کی خصوصی ٹیم بھی اسلام آباد سے اٹک جیل پہنچی۔

عمران خان کو جوڈیشل ریمانڈ ختم ہونے پر عدالت میں پیش کیا گیا جب کہ چیئرمین پی ٹی آئی کی لیگل ٹیم کے 9 وکلاء بھی سماعت میں موجود تھے۔

عدالت نے عمران خان کے جوڈیشل ریمانڈ میں مزید 14 روز کی توسیع کردی۔

سائفر معاملہ کیا ہے؟

واضح رہے کہ مارچ 2022 میں ایک جلسے کے دوران اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے اپنی جیب سے خط نکال کر دعویٰ کیا تھا کہ ان کے خلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد ان کی بیرونی پالیسی کے سبب ’غیر ملکی سازش‘ کا نتیجہ تھی اور انہیں اقتدار سے ہٹانے کے لیے بیرون ملک سے فنڈز بھیجے گئے۔

سابق وزیراعظم عمران خان کے سابق پرنسپل سیکرٹری اعظم خان نے سائفر سے متعلق اپنا بیان ریکارڈ کرایا تھا جس میں انہوں نے سائفر کو ایک سوچی سمجھی سازش قرار دیا۔

سابق پرنسپل سیکرٹری اعظم خان نے 164 کے تحت مجسٹریٹ کے سامنے اعترافی بیان ریکارڈ کرایا تھا۔