انٹرن شپ پر بھی خواتین کو زچگی کی چھٹیاں لازمی، لاہورہائیکورٹ

maternal leave must for internees
کیپشن: maternal leave must for internees
سورس: google

 ایک نیوز نیوز: لاہور ہائی کورٹ نے انٹرنشپ پروگرام کے دوران خواتین کو زچگی کی چھٹیاں دینا لازمی قرار دیا ہے۔ 

عدالتی حکم کے مطابق عورت کو حمل کے آخری ایام اور بچے کی پیدائش کے فوراَ بعد کام پر مجبور کرنا ملک کے آئین کے آرٹیکل 11 کی خلاف ورزی ہے۔عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ خواتین کو زچگی کی چھٹیاں دینے سے انکار غیر قانونی عمل ہے۔

لاہور ہائی کورٹ کے جج جسٹس طارق سلیم شیخ نے جونیئر اسکول ٹیچر سبین اصغر کی درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ کام کرنے والی خواتین کی محفوظ زچگی کے لیے چھٹیاں ضروری ہیں۔ جس طرح محفوظ ماں بننا عورت کا بنیادی حق ہے، اسی طرح چھٹیاں بھی بنیادی حق ہے۔

عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ کام کرنے والی خواتین کو زچگی کے دوران تنخواہ کے ساتھ چھٹیاں دینا یا سوشل سیکیورٹی کے تحت سہولیات دینا لازمی ہے، جو کسی بھی کام کرنے والی خاتون کے ماں بننے سے قبل اور بعد میں لاگو ہوتا ہے۔ آئین کے آرٹیکل 11 میں ہر طرح سے زبردستی کام لینے کی ممانعت ہے۔ صرف ماں بننا نہیں بلکہ آئین عورت کے محفوظ ماں بننے کے حق کا تحفظ کرتا ہے۔ جب ماں بچہ پیدا کرتے ہوئے زندگی کو خطرے میں ڈالتی ہے، تو اسے اپنی زندگی اور صحت کے تحفظ کا بھی حق ہے۔

عدالت نے 1941 کے "مائنز میٹرنٹی بییفٹ ایکٹ" اور 1973 کے "سول سرونٹس ایکٹ" کے 1980 میں ترمیم شدہ قوانین ریوازڈ لیو رولز کا حوالے دیتے ہوئے فیصلے میں مزید کہا کہ محفوظ ماں آنے والی صحت مند نسل کے لیے بہت ضروری ہے۔ جنس کی بنیاد پر تفریق تب ہوتی ہے، جب خواتین کی صحت زچگی کے دوران نظر انداز ہو جائے۔ آئین ریاست کو ایسا کوئی بھی قانون یا پالیسی بنانے سے روکتا ہے جو کسی کے حقوق کم کرے۔

رخواست گزار خواتین سبین اصغر جونئیر ٹیچر سائنس اور اِن کی ساتھی گورنمنٹ ایلیمنٹری اسکول فیصل آباد میں انگریزی کی استاد ہیں۔دونوں پنجاب کے شہر فیصل آباد میں تعینات ہیں۔سبین اصغر کو انٹرن شپ پالیسی 2014 میں زچگی کی چھٹیاں نہ ہونے پر چھٹی دینے سے انکار کیا گیا تھا۔

دونوں خواتین نے گزشتہ ماہ عدالت سے رجوع کیا تھا، جس پر عدالت نے درخواست گزار سبین کو تنخواہ کے ساتھ زچگی کی چھٹیاں دینے کی ہدایت کی ہے۔