پرویزمشرف کو سزائے موت کیس،لاہورہائیکورٹ نے حدسےبڑھ کرریلیف دیا:سپریم کورٹ

پرویزمشرف کو سزائے موت کیس،لاہورہائیکورٹ نے حدسےبڑھ کرریلیف دیا:سپریم کورٹ
کیپشن: پرویزمشرف کو سزائے موت،لاہورہائیکورٹ نے حدسےبڑھ کرریلیف دیا:سپریم کورٹ

ایک نیوز:سپریم کورٹ میں سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کے مقدمے میں موت کی سزا دینے والے خصوصی بینچ کی تشکیل کو لاہور ہائی کورٹ کی طرف سے غیر آئینی قرار دینے سے متعلق درخواست پر سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ ’لاہور ہائی کورٹ نے استدعا سے بڑھ کر ریلیف دیا کیونکہ درخواست گزار نے خصوصی عدالت کی تشکیل کالعدم قرار دینے کی استدعا ہی نہیں کی تھی۔‘

تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں خصوصی عدالت کالعدم قراردینے کیخلاف اپیل پرسماعت ہوئی۔ چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائزعیسٰی کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے سماعت کی۔

سماعت کے دوران وکیل حامد خان نے دلائل دیے۔ انھوں نے مؤقف اپنایا کہ سپریم کورٹ نے خصوصی عدالت کو کارروائی آگے بڑھانے کا حکم دیا تھا، سپریم کورٹ نے کہا ملزم سرنڈرنہ کرے تو بھی کارروائی چلائی جا سکتی ہے۔

وکیل حامد خان نے دلائل دیے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ لاہورہائی کورٹ کے نوٹس میں بھی لایا گیا تھا، لاہورہائی کورٹ میں پرویزمشرف کی درخواست اٹارنی نذیراحمد نے دائر کی، اٹارنی کی درخواست کیساتھ بیان حلفی پرویزمشرف کا ہی لگایا گیا تھا۔

چیف جسٹس پاکستان نے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کیا پرویزمشرف نے بیان حلفی پاکستان میں ہوتے ہوئے دیا تھا؟

حامد خان نے جواب دیا کہ تاثرملتا ہے کہ مشرف اوتھ کمشنرکے سامنے لاہورمیں پیش ہوئے تھے، درحقیقت بیان حلفی کے وقت وہ ملک میں ہی نہیں تھے۔

جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیئے کہ ریکارڈ کے مطابق اوتھ کمشنرمیاں خالد محمود جوئیہ تھے۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ ہائیکورٹ نے کہا خصوصی عدالت غیر آئینی ہے، خصوصی عدالت سپریم کورٹ کے حکم سے عمل میں آئی، اس طرح تو لاہور ہائیکورٹ نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو غیر آئینی کہا ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے استفسارکیا کہ پرویز مشرف پاکستان سے کب گئے؟

وکیل حامد خان نے جواب دیا کہ پرویزمشرف 18 مارچ 2016 کو پاکستان سے گئےاورپھرانتقال کے بعد ہی ان کو واپس لایا گیا۔

عدالت نے ریمارکس دیئے کہ ترتیب سے بتائیں کہ لاہورہائیکورٹ میں سنگل جج سے تین رکنی بنچ کے سامنے آئینی درخواست کیسے گئی؟ لاہور ہائی کورٹ نے استدعا سے بڑھ کرریلیف دیا، درخواست گزارنے خصوصی عدالت کی تشکیل کالعدم قراردینے کی استدعا ہی نہیں کی تھی، کیا لاہورہائی کورٹ کو آرٹیکل 187 کے تحت مکمل انصاف کا اختیار ہے؟

چیف جسٹس قاضی فائزعیسٰی نے ریمارکس دیئے کہ مکمل انصاف کا اختیارصرف سپریم کورٹ کو آئین نے دیا ہے، خصوصی عدالت پنجاب میں تھی نہ ہی ملزم وہاں کا رہائشی ہے۔ فیصلہ آئین کیخلاف ہوتو بھی متعلقہ عدالت سے ہی رجوع کرنا لازمی ہے، حیران کن ہے کہ لاہور ہائیکورٹ نے دائرہ اختیار کیسے تسلیم کرلیا؟ خصوصی عدالت ہائی کورٹ کے تین ججز پر مشتمل تھی، خصوصی عدالت کے ایک جج کا تعلق لاہورہائی کورٹ سے ہی تھا۔ لاہور ہائی کورٹ نے دراصل مختلف ہائی کورٹ ججز کیخلاف رٹ جاری کر دی ہے۔

جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیئے کہ کیا حکومت نے عدالتی دائرہ اختیار پراعتراض کیا تھا؟

دوران سماعت خصوصی عدالت میں ایک پیج پرہونے کی گونج، وکیل نے جواب دیا کہ حکومت اورسب لوگ ایک پیج پر تھے۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ سیکرٹری قانون نے اپنے جواب میں اعتراض کیا تھا۔

جسٹس منصورعلی شاہ نےریمارکس دیئے کہ علی ظفرعدالتی معاون تھے کیا انہوں نے بھی اعتراض نہیں کیا؟ کیا علی ظفر بھی ایک پیج پر ہی تھے؟

حامد خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ بظاہرتوعلی ظفر بھی ایک ہی پیج پر تھے۔

جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیئے کہ ایک پیج پرہونا کوئی آئینی دستاویز یا نظریہ ہے جس کا حوالہ دے رہے؟

سپریم کورٹ نے خصوصی عدالت کالعدم قراردینے کیخلاف اپیلوں پرسماعت 28 نومبرتک ملتوی کردی۔