انتخابات میں مبینہ دھاندلی :سینیٹ کا ہنگامہ خیز اجلاس

سینیٹ اجلا س:انتخابات میں دھاندلی پر بحث شروع
کیپشن: سینیٹ اجلا س:انتخابات میں دھاندلی پر بحث شروع

ایک نیوز :عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی پر سینیٹ کا ہنگامہ خیز اجلاس ہوا ، سینیٹر طاہر بزنجو اور سینیٹر مشتاق احمد نے چیف الیکشن کمشنر کے استعفے کا مطالبہ کردیا۔
تفصیلات کےمطابق سینیٹ اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے سینیٹر طاہر بزنجو نے کہا کہ بلوچستان میں چن چن کر حقیقی عوامی نمائندوں کو ہرایا گیا اور صوبے میں دوبڑی جماعتوں کی آشیرباد سے ڈرگ لارڈ اور لینڈگریبرز کو اسمبلی تک پہنچایا گیا۔
انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا عدلیہ کو حق تھا کہ وہ پی ٹی آئی کا نشان چھینے؟ ایسے دھاندلی زدہ انتخابات کے نتیجے میں ملک میں استحکام آئے گا؟طاہر بزنجو نے مطالبہ کیا کہ چیف الیکشن کمشنر استعفیٰ دیں ، ان کے خلاف مقدمہ چلایا جانا چاہئے ۔ان کا کہنا تھا کہ لاپتا افراد کے مسئلے کو التوا میں ڈالنےکے لیے یہ سب کیا گیا ہے۔
دوسری جانب اجلاس میں سینیٹر مشتاق احمد نے بھی چیف الیکشن کمشنر سے استعفے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن شفاف انتخابات کرانے میں مکمل ناکام رہا، چیف الیکشن کمشنر شفاف انتخابات میں ناکامی پر استعفیٰ دیں، یہ جعلی الیکشن تھا جس سے جعلی حکومت بنے گی۔
انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن غداری کا مرتکب ہوا ہے، الیکشن کمیشن عوام سے معافی مانگے، چیف الیکشن کمشنر کے خلاف مقدمہ چلنا چاہیے۔سینیٹر مشتاق احمد کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹوئٹر 3 دن سے بند ہے، دال میں کچھ کالا نہیں ساری دال کالی ہے، ٹوئٹر پر پابندی سے تعلیمی اور معاشی نقصان ہو رہا ہے۔
سینیٹر محمد ہمایوں مہمند نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ معاشی اور موجودہ صورتحال دیکھتا ہوں تو دل دکھتا ہے سوچتا ہوں کیوں ہمارا ملک ترقی نہیں کر رہا؟ ہمارے ملک میں صاف شفاف انتخابات نہیں ہوتے مسئلہ یہ نہیں کہ اب تک کے انتخابات میں کیا ہوا ہمارا سسٹم خوشامدی افراد کو پسند کرتا ہے ملک میں سیاسی میرٹ ہوتا تو میں یہاں نا ہوتا میرے سے بہت بہتر افراد ہیں جن کو یہاں ہونا چاہیے تھا یہ سسٹم بہتر کر لیا جائے تو ملک ترقی کی طرف بڑھ پائے گا ۔

مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور سینیٹر عرفان صدیقی نے سینیٹ اجلاس کے دوران انتخابات میں بے ضابطگیوں پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ہو سکتا ہے پانچ یا 10 سیٹیں ادھر ادھر ہوئی ہوں۔ پاکستان کے ہر الیکشن میں ایسا ہوتا رہتا ہے۔
پاکستان میں انتخابات کی تاریخ کچھ زیادہ خوش گوار نہیں ہے۔ ملک میں جتنے بھی انتخابات ہوئے ہیں ان میں دھاندلی کے الزامات لگتے رہے ہیں یا انتخابات کے بعد بننے والی حکومتوں کو اپنی معیاد پوری کرنے نہیں دی گی۔
انہوں نے کہا کہ دھاندلی کا سلسلہ 1970 سے جاری ہے۔ ’ایک الیکشن ملک توڑ دیتا ہے اور دوسرا مارشل کا تحفہ دے دیتا ہے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ 1970 میں اکثریت کا فیصلہ تسلیم نہ ہوا اور ملک ٹوٹ گیا اور 1977 میں الیکشن میں دھاندلی کا شور اٹھا اور نتیجے میں 11 سال مارشل کا تحفہ ملا۔
انہوں نے کہا کہ الیکشن کے بعد ٹھہراؤ آتا ہے لیکن ہمارے ہاں ایسا نہیں ہوتا۔ ’2018 میں چار دن بعد الیکشن نتائج کا اعلان ہوا۔ اس وقت کا نعرہ 35 پنکچر تھا اور آج کا فارم 45۔
انہوں نے تحریکِ انصاف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جن نشستوں پر آپ جیتے ہیں وہاں تو منصفانہ الیکشن ہوئے ہیں اور جہاں آپ کے مخالفین کو کامیابی ملی وہاں دھاندلی زدہ انتخابات ہوئے ہیں۔ تو ایسا نہیں ہو سکتا۔
انہوں نے سوال اٹھایا کہ جس الیکشن کمشنر نے پنجاب اور باقی پاکستان میں انتخابات کرائے ہیں کیا اسی نے خیبر پختونخوا میں الیکشن نہیں کرائے؟
ان کا کہنا تھا کہ اس نظام کو بچانے اور اس کے دفاع کے لیے آگے بڑھنا چاہیے۔ پی ٹی آئی کو مشورہ ہے کہ وہ سیاسی حریف جے یو آئی (ف) سے ملاقات کر سکتی ہے تو اسے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی سے بھی بات کرنی چاہیے۔