الیکشن لڑنے کا بنیادی حق چھین لیاتو آمریت نچلی سطح پر آجائے گی، چیف جسٹس

الیکشن لڑنے کا بنیادی حق چھین لیاتو آمریت نچلی سطح پر آجائے گی، چیف جسٹس
کیپشن: بلے کے نشان کیخلاف الیکشن کمیشن کی درخواست پر براہ راست سماعت جاری

ایک نیوز:  بلے کے نشان سے متعلق پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف درخواست پر سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن سے انٹرا پارٹی انتخابات کا اصل ریکارڈ طلب کر لیا، دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ لگتا ہے پی ٹی آئی نے خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی ماری۔الیکشن لڑنے کا بنیادی حق چھین لیاتو آمریت نچلی سطح پر آجائے گی۔

تفصیلا ت کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سماعت کی ۔ جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی بنچ میں شامل ہیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے آج  کی سماعت کاحکمنامہ جاری کردیا۔

حکم نامے کے مطابق پشاور ہائی کورٹ کے حکم کے خلاف  الیکشن کمیشن نے اپیل دائر کی۔آگاہ کیا گیا کہ پشاور ہائیکورٹ کا تفصیلی فیصلہ ابھی نہیں آیا۔آگاہ کیا گیا کہ عام انتخابات کی وجہ سے معاملہ فوری سماعت کا ہے۔عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو بھی کل حاضر ہونے کی ہدایت کر دی ۔ہوسکتا ہے آپ سے کل کچھ پوچھنا پڑ جائے۔مزید سماعت کل صبح دس بجے ہوگی۔

چیف جسٹس قاضیٰ فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ ہمارا ویک اینڈ برباد کرنے کا شکریہ۔

قبل ازیں صبح سماعت کےآغاز پر الیکشن کمیشن کے وکیل مخدوم علی خان اور قانونی ٹیم کمرہ عدالت میں موجود تھے، پی ٹی آئی چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان، وکیل حامد خان، وکیل شعیب شاہین،  چیف الیکشن کمشنر پی ٹی آئی نیاز اللہ نیازی بھی کمرہ عدالت میں موجود ہیں۔

پی ٹی آئی وکیل حامد خان نے پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ عدالت میں پڑھ کر سنا دیا.

وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کے باوجود الیکشن کمیشن نے بلے کا نشان نہیں دیا۔

وکیل حامد خان نے کہا کہ ہمیں کوئی نوٹس موصول نہیں ہوا۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ کیس کی فائل میں نے بھی نہیں پڑھی۔

چیف جسٹس نے وکیل حامد خان سے سوال  کیا کہ آپ مقدمہ کیلئے کب تیار ہونگے؟

وکیل حامد خان نے جواب دیا کہ پیر کو سماعت رکھ لیں۔

وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ کل امیدواروں کو انتخابی نشان الاٹ ہونے ہیں۔
 چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ پیر تک سماعت ملتوی کرنے کیلئے ہائیکورٹ کا حکم معطل کرنا پڑے گا،ہم تو ہفتے اور اتوار کو بھی سماعت کیلئے تیار ہیں۔

وکیل حامد خان نے چیف جسٹس کو جواب دیا کہ اس صورت میں تیاری کیلئے کل تک کا وقت دیں۔

وکیل الیکشن کمیشن نے دلائل میں کہا کہ پی ٹی انٹرا پارٹی الیکشن قانون کے مطابق نہیں ہوا۔

جسٹس محمدعلی مظہر نے ریمارکس دیے کہ بتائیں سیاسی جماعت انتخابات کے لیے فیڈرل الیکشن کمشنر کیسے تعینات کرتی ہے، الیکشن کمیشن کا کہنا ہے پی ٹی آئی کا فیڈرل الیکشن کمشنر بھی درست تشکیل نہیں ہوا۔

وکیل الیکشن کمیشن نے بتایا کہ جمال اکبر انصاری فیڈرل الیکشن کمشنر تھے اور اب نیاز اللہ نیازی فیڈرل الیکشن کمشنر ہیں، پی ٹی آئی کا فیڈرل الیکشن کمشنر قانون کے مطابق تشکیل ہی نہیں دیا گیا۔

دوران سماعت تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن کی اپیل کے قابل سماعت ہونے پر اعتراض اٹھا دیا۔ وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ الیکشن کمیش نے درخواست دائر کی ہے، پر دیکھنا ہوگا وہ ایسا کرسکتی ہے یا نہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کلکلٹرز کی اپیل بھی ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ تک آتی ہے، سوال یہ بھی اٹھے گا کہ پی ٹی آئی کیسے ہائیکورٹ گئی۔

وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ ہمارے خلاف فیصلہ تھا اس لیے ہائیکورٹ سے رجوع کیا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیا الیکشن کمیشن ایک فیصلہ کرے اور اسکا دفاع کرنے کے بجائے ارنڈی کر دے، الیکشن کمیشن ایسا کیوں کر؟ سیپرٹ بافی کی آپ نے مثال دی تو کلکٹر بھی سیپرٹ بافی ہوتی ہے۔ پی ٹی آئی وکیل کی جانب سے مسابقتی کمیشن کے ایک کیس کی مثال دی گئی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ یہ مثال آئینی ادارے پر کیسے نافذ ہوسکتی ہے، ہم بطور سپریم کورٹ آئین میں اضافہ یا تبدیلی نہیں کرسکتے، کیا کوئی اصول ہے جس میں الیکشن کمیشن جیسے ادارے بارے کوئی فیصلہ ہو، آپ جن عدالتوں کے فیصلوں کی بات کر رہے ہیں وہ ذیلی اداروں سے متعلق ہیں، فیڈرل الیکشن کا تقرر کیا پی ٹی آئی آئین کے تحت ہوا؟

وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ میں حیران ہوں، مجھے ابھی نوٹس نہیں ہوا.

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ یہ کیس ہائیکورٹ میں بھی چلتا رہا میں پہلی مرتبہ سن رہا ہوں۔

وکیل الیکشن کمیشن نے دلائل میں کہا کہ پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن کے خلاف الیکشن کمیشن میں 14شکایات تھیں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا یہ 14 شکایات پی ٹی آئی ممبران کی تھیں یا دیگر سیاسی جماعتوں کے ممبران تھے۔

وکیل الیکشن کمیشن نے بتایا کہ 14شکایات پی ٹی آئی ممبران نے جمع کرائیں۔

وکیل پی ٹی آئی حامد خان نے دلائل میں کہا کہ 14شکایات جو انٹرا پارٹی الیکشن کے خلاف آئیں ان کا تعلق پی ٹی آئی سے نہیں تھا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر کسی کو پسند نہیں ہے تو الگ بات ہے لیکن دستاویزات سے بتائیں کہ یہ 14 شکایت کنندگان پی ٹی آئی کے ممبران نہیں تھے اور جذباتی نا ہوں بلکہ ثبوت دکھائیں۔

جسٹس محمدعلی مظہر نے کہا کہ فاؤنڈنگ ممبر کو اگر نکالا گیا تو اس کا کاغذ دکھا دیں۔

جسٹس نے وکیل پی ٹی آئی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ فاؤنڈنگ ممبران کی فہرست بھی پیش کر دیں۔

اکبر ایس بابر کے وکیل نے دلائل میں کہا کہ اکبر ایس بابر کو پارٹی سے ہٹانے کی دستاویز نہیں دکھائی گئی۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ یعنی ابھی تک اکبر ایس بابر پی ٹی آئی کے ممبر ہیں۔

وکیل اکبر ایس بابر نے بتایا کہ الیکشن کمیشن نے اکبر ایس بابر کو ممبر قرار دیا، ممبر تسلیم کرنے کے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو کسی نے چیلنج نہیں کیا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ بعض اوقات سیاسی جماعتوں میں ایک یا دو عہدوں میں امیدوار بلامقابلہ منتخب ہوتے ہیں،الیکشن میں سخت مقابلہ ہوتا ہے،سیاسی جماعتوں میں تو انٹرا پارٹی الیکشن میں سخت مقابلہ ہوتا ہے، یہاں تو 15 کے 15 لوگ بلامقابلہ منتخب ہوگئے،اس پر تو تعجب ہے۔

پی ٹی آئی الیکشن کمشنر نے عدالت میں بیان دیا کہ پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن میں پورے ملک سے 15افراد بلامقابلہ منتخب ہوئے،الیکشن کمیشن نے یہ قرار دیا کہ سابقہ پی ٹی آئی الیکشن کمشنر جمال انصاری کو کیسے ہٹایا گیا کوئی دستاویز نہیں لگایا گیا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جسٹس (ر) وجیہہ الدین بھی ہوتے تھے۔

وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ وہ کافی پہلے ہوتے تھے۔

سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن سے اصل ریکارڈ طلب کرتے ہوئے الیکشن کمیشن اور پی ٹی آئی کے وکلاء کے سامنے تین سوالات رکھ دیے۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ پی ٹی آئی آئین میں انٹرا پارٹی الیکشن کے انعقاد کا ذمہ فیڈرل الیکشن کمشنر کو سونپا گیا،حالیہ انٹرا پارٹی الیکشن کے انعقاد میں چیف الیکشن کمشنر پی ٹی آئی کا لفظ کیوں لکھا گیا، کیا پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن میں دیگر 6 صوبائی الیکشن کمیشن ممبران نے دستخط کیے اور اگر دستخط کیے گئے تو ان کے دستاویزات کہاں ہیں،اگر دستخط نہیں کیے گئے تو کیا وجوہات ہیں۔

عدالت نے کیس کی سماعت ڈیڑھ بجے تک ملتوی کر دی۔

سپریم کورٹ میں بلے کے نشان پر وقفے کے بعد دوبارہ سماعت شروع ہوئی تو وکیل مخدوم  علی خان روسٹرم پر آگئے اوردلائل کا دوبارہ آغاز کر دیا۔

مخدوم علی خان نےکہا کہ الیکشن کمیشن نےانٹراپارٹی انتخابات کیس میں 64 صفحات پر مشتمل فیصلہ دیا،الیکشن کمیشن کے پولیٹیکل فنانس ونگ نے بھی انٹراپارٹی انتخابات پر سوالات اٹھائے تھے،الیکشن کمیشن کے مطابق تحریک انصاف کے انتخابات قانون کے مطابق نہیں تھے،پی ٹی آئی کے انتخابات خفیہ اور پیش کی گئی دستاویزات حقائق کے مطابق نہیں تھے۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ تحریک انصاف نے آئین تو بہت اچھا بنایا ہے۔

وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا کیس یہی ہے کہ انتخابات پارٹی آئین کے مطابق نہیں ہوئے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی  نے ریمارکس دیئے کہ پی ٹی آئی کا الیکشن کون کون لڑ سکتا ہے؟ 

وکیل الیکشن کمیشن  نے کہا کہ پارٹی انتخابات صرف ممبران ہی لڑ سکتے ہیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی  نے ریمارکس دیئے کہ تحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل کون ہیں؟ 

وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ پہلے اسد عمر تھے اب عمر ایوب سیکرٹری جنرل ہیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی  نےر یمارکس دیئے کہ کیا اسد عمر نے پی ٹی آئی چھوڑ دی ہے؟ 

وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ میڈیا رپورٹس کےمطابق اسد عمر تحریک انصاف چھوڑ چکے ہیں،عمر ایوب سیکرٹری جنرل کیسے بنے الیکشن کمیشن ریکارڈ پر کچھ نہیں ہے۔

 چیف جسٹس نے سوال کیا کہ پی ٹی آئی کے انتخابات کہاں ہوئے تھے؟ کسی ہوٹل میں ہوئے یا کسی دفتر یا گھر میں؟ 

پی ٹی آئی کے وکلاء نے جواب دیا کہ چمکنی کے گراؤنڈ میں ہوئے تھے۔
 چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کیا کوئی نوٹیفیکیشن ہے جس میں بتایا گیا ہو کہ پارٹی الیکشن کس جگہ ہونگے؟ 

جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے کہ چھوٹے سے گم نام گاؤں میں انتخابات کیوں کرائے؟ 

مخدوم علی خان نے کہا کہ پی ٹی آئی آئین کے مطابق چیئرمین کا انتخاب ہر 2 سال بعد ہو گااور چیئرمین کی مدت ختم ہونے پر اختیار سیکرٹری جنرل کے پاس چلا جائے گا۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ ریکارڈ پر تو کچھ نہیں ہے کہ پشاور میں جس جگہ پارٹی الیکشن ہوا،پارٹی ارکان کو کیسے معلوم ہوا کہ ووٹ ڈالنے کہاں جانا ہے؟ پی ٹی آئی وکلاء جواب نہیں دینا چاہتے تو آگے چلتے ہیں، پارٹی ممبران کو تو معلوم ہونا چائیے کہ ووٹ ڈالنے کہاں جانا ہے۔

چیف الیکشن کمشنر پی ٹی آئی نیاز اللہ نیازی نے کہا کہ واٹس ایپ پر لوگوں کو بتایا تھا اور لوگ پہنچے بھی،ویڈیو موجود ہے عدالت میں چلا لیں۔ 

چیف جسٹس نے جواب دیا کہ ویڈیوز باہر جا کر چلا لیں ہم دستاویزات پر کیس چلاتے ہیں۔

چیف جسٹس نے سوال  کیا کہ کیا الیکشن کمیشن کا یہ حکم چیلنج ہوا تھا؟ 

وکیل مخدوم علی خان  نے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ میں فیصلہ چیلنج ہوا تھا جو لارجر بنچ کو ریفر کیا گیا لیکن فیصلہ نہ ہوسکا۔

جسٹس محمد علی مظہر  نے ریمارکس دیئے کہ ریکارڈ کے مطابق کیس زیرالتواء ہونے کے دوران ہی دوبارہ پارٹی انتخابات ہوگئے تھے۔

چیف جسٹس نے سوال  کیا کہ کیا دونوں پارٹی انتخابات میں وہی عہدیداران منتخب ہوئے تھے؟ 

وکیل حامد خان نے جواب دیا کہ اس حوالے سے ہدایات اور ریکارڈ لیکر ہی آگاہ کر سکوں گا،الیکشن کمیشن نے 20 دن میں پارٹی الیکشن کرانے کا کہا تھا اس لئے دوبارہ کرائے۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ لاہور ہائیکورٹ میں زیرالتواء درخواست کیا واپس لے لی ہے؟ 

وکیل حامد خان نے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ کو درخواست غیر موثر ہونے سے آگاہ کر دیا ہے۔

بیرسٹر گوہر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے چیئرمین پی ٹی آئی کو پارٹی عہدے کیلئے نااہل کرنے کیلئے کیس چلایا،پارٹی انتخابات اور چیئرمین پی ٹی آئی نااہلی کیسز ایک ساتھ چلانے کی درخواست کی تھی۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ کیس لاہور ہائیکورٹ میں زیر التواء تھا تو پشاور ہائیکورٹ نے کیسے سن لیا؟
بیرسٹر گوہر نے ریمارکس دیئے کہ  پارٹی انتخابات کی حد تک لاہور ہائیکورٹ والا کیس غیرموثر ہوچکا ہے،انٹراپارٹی انتخابات پشاور میں ہوئے تھے اس لئے پٹیشن بھی وہیں کیے گئے۔

چیف جسٹس نے بیرسٹر گوہر سے سوال  کیا کہ آپ کس حیثیت میں دلائل دے رہے ہیں؟

چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر نے ریمارکس دیئے کہ عدالت کی معاونت کر رہا ہوں۔
 چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ حامد خان سینئر وکیل ہیں انہیں بات کرنے دیں۔اگر آپکا سمبل بنتا ہے تو فوری دے دیں،سپریم جوڈیشل کونسل اجلاس اپکی وجہ سے ملتوی ہوا،یہاں سے ریلیف نہیں ملاتو وہاں چلے جاؤ،لاہور ہائیکورٹ چلے گئے تو وہاں ہی رہے،یا پھر اسلام آباد ہائیکورٹ چلے جاتے۔

حامد خان نے کہا کہ آپکے سامنے لیول پلیئنگ فیلڈ فراہم کرنے کا کیس زیر التواء ہے،ان حالات میں اسلام آباد یا لاہور میں سیکورٹی ممکن نہیں تھی،اسی وجہ سے پشاور میں انتخابات کروائے۔

 چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کیس کا فیصلہ ہم نے 12 دنوں میں کردیا،انتخابات کے فیصلہ پر سب خوش تھے،توہین عدالت کیس میں بھی فوری حکم دیا،فوری رپورٹ منگوالی،بتائیں ہم نے کوئی کام نہیں کیا،لاہور کیس کو لٹکا کر کہیں اور کیسے چلے گئے۔

حامد خان نے کہا کہ چھٹیوں کے بعد لاہور ہائیکورٹ میں کیس چلا نہیں تھا۔

بیرسٹر گوہر  نے کہا کہ ہم پشاور ہائیکورٹ میں فورم شاپنگ کرنے نہیں گئے تھے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ فورم شاپنگ کی بات آپ نے کی،میں نے نہیں کی،جب آپ کی درخواست لاہور میں زیر سماعت تھی تو پشاور کیوں گئے؟ 

بیرسٹر گوہر نے کہا کہ کیونکہ پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات پشاور میں ہوئے تھے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پی ٹی آئی کو لاہور ہائیکورٹ کیوں پسند نہیں آئی؟
 وکیل حامد خان نے کہا کہ پشاور کے علاوہ کہیں بھی سکیورٹی نہیں مل رہی تھی۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ سکیورٹی کیلئے عدالت سے رجوع کیا جا سکتا تھا،من پسند عدالتوں سے رجوع کرنے سے سسٹم خراب ہوتا ہے۔

وکیل حامد خان نے کہا کہ لیول پلیئنگ فیلڈ کا مقدمہ عدالت میں زیر التواء ہے، ہر طرف گرفتاریوں کی وجہ سے پشاور میں سکیورٹی ملنے پر وہاں انتخابات کرائے۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ انٹرا پارٹی انتخابات کا ایک کیس لاہور دوسرا پشاور میں کیسے چل سکتا ہے،کیا پشاور ہائی کورٹ میں دائرہ اختیار کا نکتہ اٹھایا تھا؟.

وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ پشاور ہائیکورٹ میں دائرہ اختیار سمیت دو ہائی کورٹس والا نکتہ بھی اٹھایا تھا۔

وکیل مخدوم علی خان  نے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ پی ٹی آئی کی ایک درخواست خارج کر چکی ہے،پشاور ہائی کورٹ میں مقدمہ زیرالتواء ہونے کی وجہ سے لاہور ہائیکورٹ نے درخواست خارج کی۔ 

چیف جسٹس  نے ریمارکس دیئے کہ پھر تو لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ رکاوٹ نہیں بنے گا،کیا لاہور ہائیکورٹ کے سنگل بنچ کا فیصلہ پی ٹی آئی نے چیلنج کیا؟۔

وکیل مخدوم علی خان  نے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ میں انٹراکورٹ اپیل دائر کی گئی تھی۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ ریکارڈ کے مطابق تو انٹراکورٹ اپیل واپس لے لی گئی تھی۔

وکیل حامد خان نے کہا کہ جن درخواستوں کا ذکر ہو رہا ہے وہ امیدواروں نے اپنے طور پر دائر کی تھیں۔

جسٹس محمد علی مظہر  نے ریمارکس دیئے کہ درخواست گزار عمر آفتاب صدر پی ٹی آئی شیخوپورہ ہیں۔

چیف جسٹس  نے ریمارکس دیئے کہ درخواست میں کی گئی استدعا پارٹی کی جانب سے تھی، پشاور اور لاہور ہائیکورٹ میں تضاد تو آ گیا ہے،کیا لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ پی ٹی آئی نے چیلنج کیا ہے؟۔
 وکیل حامد خان نے کہا کہ پی ٹی آئی بطور جماعت فریق ہی نہیں تھی تو چیلنج کیسے کرتی؟ 

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ایک ہائیکورٹ کے سنگل بنچ کا فیصلہ ہو دوسری ہائیکورٹ کے ڈویژن بنچ کا تو فوقیت کسے ملے گی؟ 

وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ ڈویژن بنچ کے فیصلے کو فوقیت دی جائے گی،عمر ایوب کو اختیار نہیں تھا کہ نیازاللہ نیازی کو چیف الیکشن کمشنر تعینات کرتے۔

چیف جسٹس  نے ریمارکس دیئے کہ پی ٹی آئی کا پہلے موقف تھا کہ جون 2022 والے انتخابات درست تھے،دوبارہ الیکشن پر جو عہدیدار فارغ ہوئے کیا ان کے حقوق متاثر نہیں ہوئے؟ کیا پہلے والے انتخابات بھی بلامقابلہ تھے؟لگتا ہے پارٹی انتخابات پر پی ٹی آئی اور الیکشن کمیشن کا پرانا جھگڑا چل رہا ہے۔
 وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ سال 2021 میں انتخابات کا نوٹس جاری کیا تو جواب آیا کہ کرونا کی وجہ سے نہیں کرا سکتے۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ جب پی ٹی آئی حکومت میں تھی تو الیکشن کمیشن نے ریلیف دیدیا تھا۔

وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ پی ٹی آئی کو حکومت میں ہوتے ہوئے بھی شوکاز دیا تھا۔

چیف جسٹس  نے ریمارکس دیئے کہ آپ کہنا چاہ رہے ہیں نگران حکومت کے دباؤ میں کام نہیں کر رہے۔

 وکیل الیکشن کمیشن  نے کہا کہ کرونا کی وجہ سے پی ٹی آئی کو ایک سال کی مہلت دی تھی۔

چیف جسٹس  پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ الیکشن کمیشن کا پی ٹی آئی کیساتھ رویہ اب سخت ہوگیا ہے یا پہلے سےتھا،الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو وقت مانگنے پر ایک سال دیا پھر کہا انتخابات ٹھیک نہیں ہوئے،پہلے پی ٹی آئی سرکاری پارٹی تھی اب شاید نہیں ہے۔

وکیل الیکشن کمشنر نے کہا کہ پی ٹی آئی آئین کے مطابق چیف الیکشن کمشنر کا انتخاب ہونا ضروری ہے۔

وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ نیاز اللہ نیازی کا تقرر کسی بھی انتخاب کے بغیر ہوا،بیرسٹر گوہر نے بطور چیف الیکشن کمشنر استعفی دیا جس پر نیاز اللہ نیازی کا تقرر ہوا،عمر ایوب کے سیکرٹری جنرل ہونے کا بھی الیکشن کمیشن کو آگاہ نہیں کیا گیا۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ کیا الیکشن کمیشن کو سیکرٹری جنرل کی تبدیلی سے آگاہ کرنا ضروری ہے؟ 

 وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ الیکشن ایکٹ کے تحت آگاہ کرنا ضروری ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کیا باقی جماعتوں کیساتھ بھی ایسا سلوک ہی کیا جا رہا ہے؟ پی ٹی آئی کےساتھ امتیازی سلوک تو نہیں ہو رہا؟ 

 وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ تمام سیاسی جماعتوں کیساتھ یکساں رویہ ہے۔

چیف جسٹس  پاکستان نےریمارکس دیئے کہ الیکشن لڑنے کا بنیادی حق ہر شہری اور جماعت کا ہے،الیکشن لڑنے کا بنیادی حق چھین لیں تو آمریت قومی اور نچلی سطح پر بھی آ جائے گی۔

جسٹس محمد علی مظہر  نے ریمارکس دیئے کہ کیا دیگر جماعتوں کے آئین کو بھی اتنی باریکی سے دیکھا جاتا ہے؟ کیا باقی جماعتوں میں بھی بلامقابلہ انتخاب ہوتا ہے یا صرف پی ٹی آئی میں ہوا ہے؟

ڈی جی لاء الیکشن کمیشن  نے کہا کہ ریکارڈ دیکھ کر جواب دینگے۔

وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ آج پارٹی انتخابات نہ کرانے پر 13 سیاسی جماعتوں کو ڈی لسٹ کیا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ یہ بات بہت وزن رکھتی ہے کہ حکومت میں ہوتے ہوئے بھی پی ٹی آئی کو نوٹس کیا گیا تھا۔

وکیل مخدوم علی خان  نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے مطابق پی ٹی آئی کے سیکرٹری جنرل آج بھی اسد عمر ہی ہیں۔

جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے کہ پارٹی انتخابات کی آگاہی کیلئے قانون میں کوئی طریقہ کار ہے؟ ہر شخص کے پاس واٹس ایپ کی سہولت تو نہیں ہوتی۔

وکیل الیکشن کمیشن نےکہا کہ قانون صرف شفاف انٹراپارٹی انتخابات کی بات کرتا ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ ساراجھگڑا 22 دسمبر کے انتخابات کا ہے،سب سے پہلے تو ہائیکورٹ کو ڈکلئیر کرنا تھا کہ انتخابات درست ہوئے،انتخابات درست ہوئے تو انتخابی نشان کا مسئلہ آئے گا۔

وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ پشاور ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی انتخابات درست قرار دینے کا ڈیکلریشن نہیں دیا۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ بنیادی چیز جمہوریت ہے،ملک اور سیاسی جماعتوں میں بھی جمہوریت ہونی چاہیے،حامد خان صاحب پوری تیاری کرکے مخدوم علی خان کو بولڈ کرنے آئے ہیں۔

الیکشن کمیشن کے وکیل مخدوم علی خان نے مختلف عدالتی فیصلوں کے حوالے دیئے۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ فارن فنڈنگ کیس الیکشن کمیشن میں چل رہا ہے۔ فارن فنڈنگ کیس کا کیا بنا؟۔

وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ حتمی فیصلہ نہیں آیا پی ٹی آئی کو شوکاز جاری کردیا گیا تھا۔

وکیل نے کہا کہ شوکاز پر کاروائی ابھی جاری ہے۔ 

ڈی جی لاء الیکشن کمیشن  نے کہا کہ سنگل بینچ نے تو شواہد ریکارڈ کرنے کی ہدایت دی تھی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ تین سال میں فارن فنڈنگ کا فیصلہ نہیں ہوا؟

وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ فارن فنڈنگ میں بھی بے پناہ بے ضابطگی تھی۔

مخدوم علی خان نے کہا کہ پی ٹی آئی کی پٹیشن میں بھی انٹرا پارٹی انتخابات درست قرار دینے کی استدعا نہیں تھی۔

 وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ استدعا انتخابات سرٹیفکیٹ جاری کرنے اور انتخابی نشان کی گئی تھی۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ اگر صرف پارٹی انتخابات درست قرار پاتے تو باقی کسی استدعا کی ضرورت نہیں تھی،لاہور ہائیکورٹ نے کہا تھا الیکشن ایکٹ کی دفعات کالعدم قرار دیے بغیر الیکشن کمیشن کا دائرہ اختیار ختم نہیں ہوسکتا،کیا پی ٹی آئی کی ہائیکورٹ میں استدعائیں آئین کیخلاف نہیں تھیں؟ 

 مخدوم علی خان نے کہا کہ میری نظر میں استدعا آئین کیخلاف تھیں۔

چیف جسٹس پاکستان  نے ریمارکس دیئے کہ اگر پی ٹی آئی نے ثابت کردیا کہ انکے پارٹی الیکشن درست ہے تو ریلیف دینا لازم ہے، الیکشن کمیشن کو بھی انہیں انتخابی نشان دینا لازم ہوگا،اگر پی ٹی آئی ثابت کرنے میں ناکام رہی تو پھر انہیں نتائج کا سامنا کرنا ہوگا۔
الیکشن کمیشن کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل مکمل کرلیئے۔ 

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پی ٹی آئی کسی کو زبردستی تو الیکشن نہیں لڑوا سکتی۔کیا صرف اس بنیاد پر انتخابات کالعدم قرار دے دیں۔ پی ٹی آئی کو انتخابی نشان نہ ملا تو کیا اکبر بابر کو نقصان نہیں ہوگا؟

اکبر ایس بابر کے وکیل احمد حسن نے دلائل دیئے کہ اکبر بابر کا جرم قانون پر عملدرآمد کیلئے آواز اٹھانا ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا قانون کہتا ہے پارٹی الیکشن کرائو نشان تو بعد کی بات ہے۔اکبر بابر اتنے عرصے سے پی ٹی آئی کو تنگ کیوں کر رہے ہیں؟

وکیل احمد حسن نے کہا کہ پی ٹی آئی شاید اکبر بابر کو تنگ کر رہی ہے، ممنوعہ فنڈنگ پر پارٹی سے اختلاف ہوا تھا۔
 چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اکبر ایس بابر خود پی ٹی آئی کےخلاف کھڑے ہیں یا انکے پیچھے کوئی کھڑا ہے؟

اکبر ایس بابر کے وکیل احمد حسن نے دلائل مکمل کر لئے۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ حامد خان صاحب آپ آج دلائل دینا چاہیے گے یا کل ؟ کیس جب تک ختم نہیں ہوگا تب تک سماعت چلے گی، ہم ملک میں عام انتخابات کا انعقاد چاہتے ہیں۔ 

وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ کل ساڑھے نو بجے دلائل شروع کروں گا۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ چلیں ہم سماعت کل 10بجے شروع کر لینگے۔