بلوچ مظاہرین کو اسلام آباد میں پر امن احتجاج کی اجازت،آئی جی کی حامدمیرسےمعافی

بلوچ مظاہرین کو اسلام آباد میں پر امن احتجاج کی اجازت،آئی جی کی حامدمیرسےمعافی
کیپشن: بلوچ مظاہرین کو اسلام آباد میں پر امن احتجاج کی اجازت،آئی جی کی حامدمیرسےمعافی

ایک نیوز:اسلام آباد ہائیکورٹ نے آئی جی اسلام آباد کو بلوچ خواتین اور بچوں کو رہا کرنے کی ہدایت کی ہے اور بلوچ مظاہرین کو پر امن احتجاج کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ نارروا سلوک پر آئی جی پنجاب  نے کمرہ عدالت میں صحافی حامد میر سے معافی مانگ لی ۔
تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے بلوچ مظاہرین کی گرفتاری کے خلاف درخواست پر سماعت کی۔ چیف جسٹس نے پولیس انسپکٹر کے عدالت میں پیش ہونے پر برہمی کا اظہار کیا اور آئی جی اسلام آباد یا سیکریٹری داخلہ کو آدھے گھنٹے میں عدالت میں پیش ہونے اور بلوچ مظاہرین کی گرفتاریوں سے متعلق رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا۔
چیف جسٹس کے حکم پر آئی جی اسلام آباد ڈاکٹر اکبر ناصر خان عدالت میں پیش ہوئے۔ درخواست گزار کی جانب سے وکیل عطا اللہ کنڈی ، ایمان مزاری ، زینب جنجوعہ پیش ہوئے۔ ایڈوکیٹ جنرل اسلام آباد ایاز شوکت اور سینیئر صحافی حامد میر بھی عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔
آئی جی اسلام آباد نے اپنا مؤقف پیش کرتے ہوئے کہا کہ عدالت کو جس طرح بتایا گیا ویسا نہیں ہے، ہماری حراست میں کوئی خاتون نہیں ہے۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ صبح بتایا گیا کچھ خواتین کو زبردستی واپس بھیجا جا رہا تھا جس پر آئی جی نے عدالت کو بتایا کہ جو واپس جانا چاہتے تھے ان کے لیے بس کا انتظام کیا گیا تھا، آئی ٹین میں یہ خواتین اور بچے موجود ہیں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ بچے آئی ٹین میں کیوں ہیں، وہ جہاں بھی جانا چاہیں وہ جا سکتے ہیں، وہ پرامن احتجاج کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں۔ چیف جسٹس نے آئی جی کو ہدایت کی کہ آپ ان کے منتظمین کو لے جائیں اور ان کو ان کے حوالے کر دیں۔
رخواست گزار کے وکیل عطا اللہ کنڈی بولے کل ان کا بیان تھا کہ خواتین ان کی حراست میں نہیں ہیں، جس پر چیف جسٹس آئی جی سے مخاطب ہوکر کہا کہ کل آپ نے کہا تھا کہ خواتین آپ کی حراست میں نہیں ہیں مگر پھر یہ گئے بھی ہیں۔
آئی جی نے جواب دیا، ’ان کے لیے ٹرانسپورٹ کا بندوبست تھا۔

 چیف جسٹس نے آئی جی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کیا خواتین نے پولیس اسٹیشن میں خود کو بند کر لیا تھا، کل آپ نے کہا کوئی بچہ کوئی خاتون نہیں تھی، کون اپنی مرضی سے تھانے میں بیٹھتا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 6 بچے تھے اور کچھ خواتین تھیں جو آئی ٹین گئی تھیں اور استفسار کیا کہ کتنے لوگ آپ کی حراست میں ہیں۔

آئی جی نے عدالت کو بتایا کہ 216 لوگ حراست میں لیے گئے، 34 جوڈیشل حراست میں اور ایک فزیکل ریمانڈ پر ہے، 19 خواتین کو رہا کر دیا گیا ہے۔
عدالت نے آئی جی اسلام آباد کو ہدایت کی کہ جس جس خاتون کو گرفتار کیا گیا اس کے بارے میں وہ تحریری طور پر بتائیں، ویمن پولیس اسٹیشن میں کتنی خواتین گئیں، اس کی رپورٹ دیں، مناسب یہی ہے آپ درخواست گزا کے وکلا کو مطمئن کریں کہ کتنے مظاہرین آپ کی حراست میں تھے اور کتنے آپ نے رہا کیے۔
سینیئر صحافی حامد میر نے عدالت کو بتایا کہ کل بتایا گیا کہ تمام خواتین کو رہا کر دیا گیا ہے، 3 وفاقی وزرا  اور آئی جی نے اس حوالے سے پریس کانفرنس کی، تاہم مجھے پتہ چلا کہ کسی بھی خاتون کو رہا نہیں کیا گیا جس کے بعد میں بھی ویمن پولیس اسٹیشن چلا گیا۔
حامد میر نے کہا کہ پولیس خواتین اور بچیوں کو گھسیٹ کر لا رہی تھی، میرا موبائل چھین لیا گیا، وہاں موجود پولیس نے مجھ سے بھی بدتمیزی کی، پھر ڈرائیور نے کہہ دیا میں بس نہیں چلاؤں گا۔
چیف جسٹس عامر فاروق آئی جی سے مخاطب ہوئے کہ یہ نہیں ہونا چاہیے تھا، یہ طریقہ نہیں ہے، احتجاج میں یہ ہوتا ہے لیکن ان کے ساتھ اس طرح کرنا مارنا پیٹنا غلط ہے، حامد میر سینیئر صحافی ہیں ان کے ساتھ ایسا رویہ، آخر ہم کس زمانے میں رہ رہے ہیں ۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اسٹریٹ کرائمز اتنے بڑھ گئے ہیں، جو کام آپ کے کرنے والے ہیں وہ نہیں کرتے، ہمارے اپنے اسٹاف کے کسی کے موبائل کسی کا پرس چھینا گیا، اسٹریٹ کرائمز میں اضافہ ہورہا ہے میں تجربے کی بنیاد پر آپ کو بتا رہا ہوں۔
اس موقع پر آئی جی اسلام آباد نے کہا کہ وہ حامد میر سے معذرت خواہ ہیں، تہذیب کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے ہمارے افسر کو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔
 اس سے قبل درخواست گزار کے وکیل عطا اللہ کنڈی  نے عدالت کو بتایا کہ ایس پی نے ہمارے وکلا سے کہا کہ ان لوگوں کو کہیں بسیں باہر کھڑی ہیں، یہ واپس چلے جائیں۔ وکیل نے مزید بتایا کہ اس معاملے پر ہماری ان کے ساتھ 3 گھنٹے گفتگو ہوتی رہی تاہم ہمیں کہا گیا کہ وزیراعظم کی ہدایت ہے کہ مظاہرین کو واپس بلوچستان بھیجیں۔
وکیل نے عدالت کو بتایا کہ پولیس نے زبردستی تمام خواتین کو بسوں میں سوار کروا دیا، اسلام آباد سے کچھ طلبہ کو بھی زبردستی بسوں میں بٹھایا گیا، بعدازاں اسلام آباد کی طالبات کو رہا کردیا گیا۔
درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ ڈرائیورز کو معاملہ حقیقت کے برعکس لگا تو انہوں نے بسیں چلانے سے انکار کردیا، اس دوران آئی جی اسلام آباد تھانے پہنچے اور انہوں نے بھی کہا کسی طرح انکو یہاں سے بھیجیں۔
وکیل نے بتایا کہ اس کے بعد پولیس نے تھانے کے دروازے بند کردیے، صبح 5 بجے پولیس نے بیان جاری کیا کہ ہم نے مظاہرین کو بحفاظت ان کے مقام پر پہنچا دیا ہے۔