جبری گمشدگیاں اور لاپتہ افراد کیس؛ ریاست کو اپنا مائنڈ سیٹ بدلنا ہوگا، چیف جسٹس

جبری گمشدگیاں اور لاپتہ افراد کیس؛ ریاست کو اپنا مائنڈ سیٹ بدلنا ہوگا، چیف جسٹس
کیپشن: جبری گمشدگیاں اور لاپتہ افراد کیس؛ ریاست کو اپنا مائنڈ سیٹ بدلنا ہوگا، چیف جسٹس

ایک نیوز: سپریم کورٹ میں جبری گمشدگیوں اور لاپتہ افراد سے متعلق بیرسٹر اعتزاز احسن سمیت دیگر درخواستوں پر براہ راست سماعت جاری ہے۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر کسی کو خدشات ہیں تو ایف آئی آر درج کروائیں، ہمارے پاس کوئی فوج کھڑی ہے جو پروٹیکشن دیں؟ صرف عدالتی فیصلوں سے کچھ نہیں ہوگا۔حکومت کو اپنا مائنڈ سیٹ بدلنا ہوگا۔ عدالت نے کیس کی مزید سماعت 9 جنوری تک ملتوی کردی۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں تین رکنی بینچ سماعت کررہا ہے۔ بنچ میں جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی شامل ہیں۔ 

لطیف کھوسہ نے کہا کہ شعیب شاہین، آمنہ مسعود جنجوعہ روسٹرم پر موجود ہیں۔ گزشتہ روز پہنچ نا سکنے پر معذرت خواہ ہوں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کے کیس میں بہت گہرائی اور تفصیل سے دلائل ہو چکے ہیں۔

اعتزازاحسن کے وکیل شعیب شاہین نے دلائل کا آغاز کر دیا۔  شعیب شاہین نے کہا کہ درخواست پر اعتراضات ختم کر دیے تھے لیکن ابھی تک نمبر نہیں لگایا گیا۔ 

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیس آگے بڑھائیں۔ رجسٹرار اعتراضات کیخلاف تحریری آرڈر آج کر دیں گے۔ 

شعیب شاہین کی جانب سے لاپتہ افراد سے متعلق ماضی کے عدالتی فیصلوں کا حوالہ: 

شعیب شاہین نے کہا کہ ایجنسیوں کے کردار پر فیض آباد دھرنا کیس میں بھی تفصیل سے لکھا گیا ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ فیض آباد دھرنا کیس سے لاپتہ افراد کا کیا تعلق ہے؟ شعیب شاہین نے کہا کہ لاپتہ افراد کا براہ راست ذکر نہیں لیکن ایجنسیوں کے آئینی کردار کا ذکر موجود ہے۔ 

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ فیض آباد دھرنا فیصلے میں قانون کے مطابق احتجاج کے حق کی توثیق کی گئی ہے۔ کچھ دن پہلے مظاہرین کو روکا گیا تھا اس حوالے سے بتائیں۔ حیرت ہے آپ فیض آباد دھرنا کیس کا حوالہ دے رہے ہیں۔ 

شعیب شاہین نے کہا کہ ہر ادارہ اپنی حدود میں رہ کر کام کرتا تو یہ دن نہ دیکھنے پڑتے۔ پہلے دن سے ہی فیض آباد دھرنا فیصلے کے ساتھ کھڑے ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس کیس سے پہلے ایک اور کیس تھا۔ ابصار عالم میڈیا پر بات کر رہے تھے۔ انہوں نے ہمت پکڑی اور اس عدالت میں آکر بات کی۔ شعیب شاہین نے کہا کہ عمران ریاض کو عدالت بلائے تو وہ پیش ہونے کو تیار ہے، عدالت پروٹیکشن فراہم کرے۔ 

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیا ہم کسی کیلٸے کارپٹ بچھائیں گے؟ اگر کسی کو خدشات ہیں تو ایف آٸی آر درج کرائے۔ ہمارے پاس کوٸی فوج کھڑی ہے جو پروٹیکشن دیں گے۔ آپ اس کو سیاسی اکھاڑا نا بناٸیں۔ شیخ رشید نے آپکو کیا کہا؟ دھرنا کیس، الیکشن کیس میں شیخ رشید عدالت آ سکتے ہیں تو اس میں کیوں نہیں؟ 

جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ جو اپنے لٸے بات نہیں کر سکتے تو وہ کسی کیلٸے کیا بات کریں گے۔ 

وکیل شعیب شاہین کا مطیع اللہ جان کیس کا بھی حوالہ: 

وکیل شعیب شاہین نے مطیع اللہ جان کیس کا بھی حوالہ دیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کل آپ مطیع اللہ جان کا نام نہیں لے رہے تھے۔ اس وقت کی حکومت نے ذمہ داری لی تھی؟ 

شعیب شاہین نے کہا کہ اس وقت کی حکومت کی مداخلت سے ہی شاید وہ جلدی واپس آگئے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کریڈٹ نہ لیں وہ واقعہ کیمروں میں ریکارڈ ہو گیا تھا۔ حیران ہوں اس کیس میں ایک بھی بندے کو ذمہ دارنہیں ٹھہرایا گیا۔ یہ کیس دو منٹ میں حل ہو سکتا تھا۔

چیف جسٹس نے آمنہ مسعود جنجوعہ کو روسٹرم پر بلالیا۔ 

آمنہ جنجوعہ نے کہا کہ میرے شوہر 2005میں جبری گمشدہ ہوئے تھے۔ اسوقت چیف جسٹس افتخار چوہدری نے نوٹس لیا تھا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اسوقت کس کی حکومت تھی؟ آمنہ جنجوعہ نے کہا کہ اسوقت پرویز مشرف کی حکومت تھی۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ اٹارنی جنرل! کیا آپ حکومت کی طرف سے کہہ سکتے ہیں کہ کسی کو غیر قانونی نہیں اٹھایا جائے گا۔

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ جی میں بالکل یہ کہہ سکتا ہوں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپکے شوہر کو کس وجہ سے اٹھایا گیا تھا؟ آپ کے کاروباری شوہر کا حکومت یا ریاست سے کیا تعلق تھا؟ ریاست کس وجہ سے آپ کے شوہر کو اٹھائے گی؟ پہلے وجہ سمجھ آئے کہ حکومت نے کیوں آپ کے شوہر کو اٹھایا ہوگا۔ کیا آپ کے شوہر مجاہدین کے حامی تھے یا کسی تنظیم کے رکن تھے؟ 

آمنہ جنجوعہ نے کہا کہ لاپتہ افراد کمیشن نے میرے شوہر کو 2013 میں مردہ قرار دیدیا تھا۔ میرے شوہر دوست سے ملنے پشاور کیلئے نکلے لیکن پہنچے نہیں، جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ آپ کو کس پر شک ہے؟ غیرریاستی عناصر بھی ہیں اور ایجنسیاں بھی۔ آمنہ جنجوعہ نے بتایا کہ سال 2007 میں معلوم ہوا کہ میرے شوہر آئی ایس آئی کی تحویل میں ہیں۔

لطیف کھوسہ نے بتایا کہ سپریم کورٹ سے بڑی عمارت لاپتہ افراد کمیشن والوں کی ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کمیشن کے لوگوں کا تقرر کیسے ہوا؟ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ وقت کے ساتھ ساتھ کمیشن کے نمائندگان کی معیاد میں توسیع ہوتی رہی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ لاپتہ افراد کیس میں ذاتی مسئلے نہیں سنیں گے۔ ہم مسئلے کا حل ڈھونڈنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ حکومت کو کمیشن کے پروڈکشن آرڈر پر جواب دینا چاہیے۔

6 حجاموں کے قتل کا تذکرہ
دورانِ سماعت چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے شمالی وزیرستان میں 6 حجاموں کے قتل کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ کیا قتل کرنے والے کو خدا کا خوف نہیں ہوتا؟ 6 حجام قتل کر دیے گئے، لوگوں کو خوف ہی نہیں ہے، قتل کرنے والے یہاں سزا سے بچ سکتے ہیں، آخرت میں تو جواب دینا ہو گا، بلوچستان میں 46 زائرین کو مار دیا جاتا ہے، عدالت کا کام نہیں، حکومت کی ذمے داری ہے کہ لوگوں کی سوچ کو بدلے۔

سپریم کورٹ میں لاپتہ افراد کمیشن کے کام اور کارکردگی سے متعلق بھی گفتگو ہوئی۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ لاپتہ افراد کمیشن کے سربراہ کون ہیں؟ ان کی عمر کتنی ہے؟اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کمیشن کے سربراہ ہیں، ان کی عمر 77سال ہو گی۔

اس موقع پر رجسٹرار لاپتہ افراد کمیشن سپریم کورٹ میں پیش ہوئے۔چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے رجسٹرار لاپتہ افراد کمیشن سےکہا کہ کیا آپ صرف تنخواہ ہی لے رہے ہیں؟جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا کہ کتنی مرتبہ کمیشن کا اجلاس ہوتا ہے؟ کتنی ریکوری ہوئی ہے؟رجسٹرار لاپتہ افراد کمیشن نے جواب دیا کہ اس ماہ 46 لوگ بازیاب ہوئے ہیں۔

آمنہ مسعود جنجوعہ نے استدعا کی کہ سپریم کورٹ میرے شوہر اور فیصل فراز سے متعلق معاملہ دیکھے۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہمیں کسی سیکشن افسر کا بیان نہیں چاہیے، ہمیں حکومتِ پاکستان تحریر دے کہ مزید کسی کو غیر قانونی لا پتہ نہیں کیا جائے گا، اس ملک کو اپنوں نے ہی فریکچر کیا ہے، ریاست کو اپنا مائنڈ سیٹ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے، صرف عدالتی فیصلوں سے کچھ نہیں ہو گا۔

چیف جسٹس نے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ پشاور ہائی کورٹ کے ججز کے حوالے سے آج جوڈیشل کمیشن کا اجلاس ہے۔ آج مزید سماعت کرنا ممکن نہیں ہوگا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے کمیشن نے کیا کام کیا ہے؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ اختر مینگل نے اپنی رپورٹ جمع کروا دی تھی۔ 

عدالت نے منگل تک لاپتہ افراد کمیشن سے تمام مقدمات کی تفصیلات مانگ لیں۔ کمیشن کو تمام پروڈکشن آرڈرز اٹارنی جنرل کو فراہم کرنے کی ہدایت کردی گئی۔ عدالت نے حکم دیا کہ اٹارنی جنرل آگاہ کریں کہ پروڈکشن آرڈرز کے حوالے سے حکومت کا کیا مؤقف ہے؟ 

اٹارنی جنرل نے عدالت میں بیان دیا کہ وفاقی حکومت نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے احکامات کیخلاف دائر اپیلیں واپس لے لیں۔ عدالت نے وفاقی حکومت کی اپیلیں واپس لینے کی بنیاد پر خارج کر دیں۔ ہائیکورٹ کے احکامات پر عملدرآمد ہوچکا ہے۔

اعتزاز احسن روسٹرم پر آ گئے

سپریم کورٹ میں لاپتہ افراد کیس کی سماعت کے دوران اعتزاز احسن روسٹرم پر آ گئے جنہوں نے کہا کہ یہ سنجیدہ مسئلہ ہے اور ریٹائرڈ جج کو کوئی سیریئس نہیں لیتا، لاپتہ افراد کمیشن میں حاضر سروس جج کو ہونا چاہیے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے رجسٹرار لاپتہ افراد کمیشن سے سوالات کیے کہ آج کل لوگ لاپتہ ہو رہے ہیں یا نہیں؟ آپ کے پاس کیسز آ رہے ہیں؟

رجسٹرار لاپتہ افراد کمیشن نے جواب دیا کہ جی کمیشن کے پاس کیسز آ رہے ہیں۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ کیسز آنے کے بعد کمیشن کیا کرتا ہے؟رجسٹرار لاپتہ افراد کمیشن نے جواب دیا کہ کیسز آنے کے بعد کمیشن جے آئی ٹی بناتا ہے۔

آمنہ مسعود جنجوعہ نے کہا کہ ہم لوگ لاپتہ کمیشن کے پاس گئے، ہم ان سے مطمئن نہیں۔چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ اعتزاز احسن صاحب! آپ مطمئن ہیں اس کمیشن سے یا نہیں؟اعتزازاحسن نے جواب دیا کہ میں بالکل مطمئن نہیں ہوں۔چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ یہاں اعتزاز احسن سمیت کوئی بھی لاپتہ افراد کمیشن سے مطمئن نہیں ہے۔

عدالت نے آج کی سماعت کا حکمنامہ لکھوانا شروع کر دیا۔  کمیشن کی جانب سے جاری کردہ تمام پروڈکشن آرڈر بارے تفصیلی رپورٹ دیں۔ لاپتہ افراد کیس کی سماعت 9جنوری تک ملتوی کردی گئی۔