قومی اسمبلی: حکومتی اور اپوزیشن ارکان کی ایک دوسرے پرتنقید

قومی اسمبلی: حکومتی اور اپوزیشن ارکان کی ایک دوسرے پرتنقید
کیپشن: قومی اسمبلی: حکومتی اور اپوزیشن ارکان کی ایک دوسرے پرتنقید

ایک نیوز :قومی اسمبلی اجلاس کے دوران حکومتی اور اپوزیشن ارکان ایک دوسرے کو تنقید کانشانہ بناتے رہے۔

 سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کی زیرصدارت اجلاس ہوا ۔نئے منتخب شدہ اراکین قومی اسمبلی نے حلف اٹھا لیا۔
 علی پرویز ملک اور ملک رشید احمد پیپلز پارٹی کے خورشید جونیجو نے بھی حلف اٹھالیا ۔تینوں اراکین ضمنی انتخابات میں کامیاب ہوئے تھے۔

اراکین کی حلف برداری کے دوران سکیورٹی حکام نے نعرے بازی کرنے والوں کو مہمانوں کی گیلری سے نکال دیا۔

بلوچستان بالخصوص  کوئٹہ میں سوئی گیس کی جانب سے اوور بلنگ اور زائد سروے چارجز وصول کئے جانے پر توجہ دلاؤ نوٹس ایوان میں پیش کیاگیا۔

وفاقی وزیر پارلیمانی امور اعظم نذیر تارڑ کاکہنا تھا کہ میٹر ٹینڈرگ اور گیس چوری کی وجہ سے بلوچستان میں ان مسائل کا سامناہے۔بلوچستان ہائیکورٹ نے معاملے پر فکس ریٹ 5700 مقرر کیا۔کوئٹہ میں نقصانات 55 فیصد ہیں۔کراچی سے کمرشل گیس کا ایک بڑا حصہ کویٹہ میں رہائشی مقاصد کے لیے دیا جاتا ہے۔قدرتی ذخائر ہمارا قومی سرمایہ ہیں، چوری سے بہت نقصانات ہوں گے۔

وفاقی وزیر پارلیمانی امور اعظم نذیر تارڑ نے کوئٹہ میں گیس چوری میں محکمے کے افسران ملوث ہونے کا اعتراف کیا ۔

قومی اسمبلی اجلاس میں  وفاقی وزیر خوراک کی جگہ وزیر پارلیمانی امور نے تخم (ترمیمی) آرڈیننس 2024 ایوان میں پیش کیا۔

رکن قومی اسمبلی عمیرنیازی کاکہنا تھاکہ تخم ایکٹ 1996 میں ترمیم لائی جا رہی ہے۔اس ترمیم کے ذریعے ملٹی نیشنل کمپنیوں کو پاکستان کے پیدا کرتا بیج کا کنٹرول دیا جائے گا۔بیوروکریسی کے ہاتھ بیوقوف نہیں بننا چاہیے، زمین ملٹی نیشنل کمپنیوں کے حوالے نہ کریں۔

وفاقی وزیر اعظم نذیر تارڑ کاکہنا تھا کہ ابھی یہ آرڈینیس کمیٹی میں جائے گا، اپوزیشن اور حکومت اس کا جائزہ لیں گے۔ہماری فی ایکڑ پیداوار پریشان کن حد تک کم ہے۔بیج کا معیار اور مقدار کا جائزہ لینے کے لئے یہ آرڈینیس پیش کیا گیا ہے۔

پیپلزپارٹی کے رکن اسمبلی سید نوید قمر کاکہنا تھا کہ نگراں حکومت میں متعارف کروائے گئے آرڈیننس پر ہمیں بھروسہ نہیں۔

پاکستان پیپلز پارٹی نے نگراں حکومت میں متعارف کردہ آرڈیننسز پر عدم اعتماد کر دیا۔

سپیکر سردار ایاز صادق کاکہنا تھا کہ کمیٹیوں کے معاملے پر  اپوزیشن اور حکومت کی سہولت کاری کر سکتا ہوں۔اب تک کمیٹیوں کے چیئرمین کا نام نہیں دیا گیا۔

چکدرہ اپر دیر میں سڑک کی ناگفتہ بہ حالت پر توجہ دلاؤ نوٹس ایوان میں پیش کیاگیا

وفاقی وزیر اعظم نذیر تارڑ کاکہنا تھا کہ 111 کلومیٹر کے مجموعی حالات اتنے ناگفتہ بہ نہیں ہیں۔27 کروڑ روپے کی گرانٹ این ایچ اے نے مختص کر دی ہے۔ایکسم بینک قرض دے گا جس سے سڑک کی تعمیر نو ہو گی۔فنڈز کا اجراء بھی جاری ہے، ٹھیکہ ایوارڈ کئے جانے کا کام بھی جاری ہے۔ روڈ انفراسٹرکچر کی مد میں مسلم لیگ ن کی حکومت میں بے مثال ترقی ہوئی۔

رکن اسمبلی صاحبزاہ صبغت اللہ کاکہنا تھا کہ وزیر مواصلات خود موجود ہوتے تو ذیادہ مناسب ہوتا ۔کیا 27 کلومیٹر سڑک کی تعمیر کے لئے ہونے والے ٹھیکے کے تحت ہی کام ہو گا؟ 

اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ شمسی خان پل 10 ارب روپے کے اخراجات سے تعمیر کیا جائے گا۔مختلف جگہوں پر تعمیر نو کے لئے دو سے تین ہفتوں میں کام شروع ہو گا۔مجموعی طور پر 96 کروڑ روپے سے سڑک کی تعمیر نو کا کام جاری ہے۔

سنی اتحاد کونسل کے رہنما عامر ڈوگر کاکہنا تھا کہ پچھلے دو سالوں میں این ایچ اے کی تعمیر کردہ سڑکوں کی مرمت نہیں ہو رہی۔قومی شاہراہوں کی تعمیر نو اور مرمت کے لئے کیا پالیسی ہے؟

سنی اتحاد کونسل کے رہنما اسد قیصرکاکہنا تھا کہ کراچی سے بیٹھے لوگ مسترد شدہ ہیں۔

اسد قیصر کے ریمارکس پر ایم کیو ایم کے اراکین کا شدید احتجاج،نعرے بازی کرتے رہے۔

اسد قیصرکاکہنا تھا کہ کیا یہ ملک آزاد ہے یا یہاں مارشل لاء لگا ہے۔اس ملک نے قانون اور آئین کے مطابق چلنا ہے، ہمیں جلسے نہیں کرنے دیے جا رہے۔ہمارے ساتھ یہ رویہ رکھا گیا تو یہ اسمبلی نہیں چلے گی۔9 مئی کو رونا رونے کے باوجود عوام نے انہیں مسترد کیا۔

اسد قیصر  نے 9 مئی پر جوڈیشل کمیشن بنانے کا مطالبہ کردیا۔

رکن اسمبلی اسد قیصرکاکہنا تھا کہ 9 مئی محسن نقوی اور آئی کی پنجاب کا ڈرامہ ہے۔ہم پارلیمنٹ کو مضبوط، آئین و قانون کی حکمرانی دیکھنا چاہتے ہیں۔اسلام آباد میں 6 ججوں کی تضحیک کی گئی، ہم ملک میں سویلین سپریمیسی چاہتے ہیں۔

قومی اسمبلی اجلاس میں رکن اسمبلی قادر پٹیل کا پوائنٹ آف آرڈر پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہنا تھا کہ محترم سابق سپیکر نے پوچھا کس قانون کے تحت جلسوں کی اجازت نہیں دی جا رہی۔یہ اسی قانون کے تحت ہو رہا ہے جس کے تحت آپ پروڈکشن آرڈرز جاری نہیں کرتے تھے۔یہ وہی قانون ہو گا جس کے تحت اراکین قومی اسمبلی ایوان میں آ کر اپنی لوکیشن کہیں بھیجا کرتے تھے۔آپ اپنے چیئرمین کوچھڑانے کے لئے جیل پر حملہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔انتخابات پورے پاکستان میں ہوا، نتائج آپ کے حق میں بھی آئے خلاف بھی۔2018 میں میرے حلقے میں تین بار دوبارہ گنتی کی گئی۔ہم نے سیاسی کارکن کی طرح سب صورتحال کا مقابلہ کیا۔

قادر پٹیل نے کہا کہ سب نشستوں پر بیٹھ جائیں، صدارتی نظام یا امیر المومنین والا نظام لے آئیں۔4 سالوں میں کروڑوں نوکریاں، لاکھوں گھر بنا دئے گئے۔ 

رکن اسمبلی سید وسیم حسین کاکہنا تھا کہ ہیسکو اور سیپکو میں اب تک چیف ایگزیکٹو آفیسر نہیں لگایا جا سکا۔13 اضلاع میں سے صرف حیدرآباد میں بجلی چوری کے خلاف مہم چل رہی ہے۔2023 میں جب مہم شروع ہوئی تو 24 فیصد تھے، آٹھ مہینے بعد 25 فیصد نقصانات تھے۔

سید وسیم حسین نے سپیکر قومی اسمبلی کو سپیکر بھائی کہ کر مخاطب کر دیا۔

پہلی دفعہ کسی نے سپیکر بھائی کہا ہے، سپیکر قومی اسمبلی نے مسکراتے ہوئے جواب دیا 

سید وسیم حسین کاکہنا تھا کہ پہلی ایف آئی آر درج کرنے کے 10 ہزار روپے پولیس افسر کو ددیئے گئے۔

سید وسیم حسین نے قومی اسمبلی میں ایف آئی آرز کے اندراج کے بدلے پولیس کو 25 ہزار روپے دیے جانے کا انکشاف کیا ۔

رکن اسمبلی آغا رفیع اللہ  کاکہنا تھا کہ میری درخواست ہے کہ میرے اپوزیشن کے دوستوں کو کہیں کہ وہ شور کیوں کرتے ہیں۔کیا اتنی سچی بات حکومتی بینچز ہوتی ہے کہ یہ برداشت نہیں کرسکتے ۔یہ اگر آرام سے سنیں تو بات بہتر انداز میں عوام تک پہنچ سکتی ہے ۔کراچی میں بجلی میں اوور بلنگ کیساتھ گھنٹوں گھنٹوں بجلی نہیں مل رہی۔

امیر مقام کا نکتہ اعتراض پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہنا کہ ہم نے دھرنا بھی برداشت کیا ہے، پی ٹی وی حملہ بھی دیکھا ہے۔پورے پاکستان  کیلئے ایک قانون ہونا چاہیے۔نو مئی کو کس نے حملہ کیا، پشاور میں ریڈیو پاکستان پر کس نے حملہ کیا۔حزب اختلاف کو نعرے لگانے کے بجائے ہمیں سننا ہو گا۔میرے خلاف تئیس مقدمات بنائے گئے۔میری اہلیہ کے وارنٹ جاری کیے گئے اور میرے کاروبار کو اڑا کے رکھ دیا گیا۔لیڈرشپ یہ نہیں ہوتی جو کہے میں ہوں تو پاکستان ہے میں نہیں تو پاکستان نہیں۔کے پی کے میں پی ٹی آئی کو ترقی سے کس نے روکا؟

امیرمقام کا مزید کہنا تھا کہ اپر دیر چکدرہ روڈ نواز شریف کے دور میں پی ایس ڈی پی میں رکھا،انہوں نے نکال دیا۔

امیر مقام کی تقریر کے دوران سنی اتحاد کونسل کے اراکین کی نعرے بازی اور شور شرابہ کرتے رہے۔

ٹیکس قوانین ترمیمی بل پر سینیٹ کی سفارشات قومی اسمبلی میں پیش کی گئیں۔

وزیرقانون اعظم نذیر تارڑ کاکہنا تھا کہ 2700 ارب روپے کی ٹیکس مقدمات مختلف عدالتوں میں زیر التوا ہیں۔کچھ بنیادی اصلاحات تجویز کی گئی ہیں۔30 دن تک ریکوری میکانزم پلیس نہیں ہو گا۔معاشی صحت کو بہتر بنانے کے لئے یہ بل متعارف کرایا گیا۔دو فاضل ممبران نے ترامیم تجویز کی ہیں۔وزیراعظم اپنا اختیار چھوڑ کر ایک کمیٹی کے حوالے کر رہے ہیں۔ایوان سے درخواست ہے اس بل کو منظور کیا جائے۔