بھارت میں مسلم مخالف نفرت انگیز تقاریر پر ہندوتوا واچ کی رپورٹ

بھارت میں مسلم مخالف نفرت انگیز تقاریر پر ہندوتوا واچ کی رپورٹ
کیپشن: Hindutva Watch report on anti-Muslim hate speech in India

ایک نیوز: ہندوتوا واچ کی رپورٹ کے مطابق 2023کے پہلے چھ ماہ کے دوران مسلم مخالف تقاریر کے 255 معاملات درج کیے گئے۔  ہندوتوا واچ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نفرت انگیز تقاریر کے تقریباً 70 فیصد واقعات ان ریاستوں میں ہوئے، جہاں اگلے چند ماہ میں انتخابات ہونے والے ہیں۔

ہندوتوا واچ کی رپورٹ کے مطابق 2014 میں جب سے حکمران ہندو  قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے اقتدار سنبھالا تھا تب سے بھارت میں نفرت انگیز تقاریر کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔

2018 کی ایک میڈیا رپورٹ اور سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2014کے بعد سے اعلیٰ عہدے داروں کی تقاریر میں منافرت پھیلانے کے واقعات اور تعزیرات ہند کی دفعہ 153A کے تحت رجسٹرڈ ہونے مقدمات میں 500 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

ہندوتوا واچ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نفرت انگیز تقاریر کے ان واقعات میں سے 205  بی جے پی کی حکومتی ریاستوں اور علاقوں میں پیش آئے، مہاراشٹر، کرناٹک، مدھیہ پردیش، راجستھان، اور گجرات میں نفرت انگیز تقاریر کے اجتماعات کی سب سے زیادہ تعداد دیکھنے میں آئی، بی جے پی کی زیرحکمرانی ریاستوں اور علاقوں میں تقریباً 52 فیصد نفرت انگیز تقاریر کے اجتماعات راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) سے وابستہ اداروں کے ذریعہ ترتیب دیے گئے۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ بی جے پی مجموعی طور پر، 17 ریاستوں میں 42 فیصد نفرت انگیز تقریروں کے اجتماعات آر ایس ایس سے وابستہ گروپوں کے ذریعے منعقد کروا چکی ہے،  تمام اجتماعات میں سے تقریباً 33 فیصد میں واضح طور پر مسلمانوں کے خلاف تشدد  اور مسلمانوں کا بائیکاٹ ، 4فیصدمیں واضح طور پر مسلم خواتین پر جنسی تشدد، 12فیصدواقعات میں ہتھیاروں  کے استعمال، 83 واقعات میں ہندوتوا گروپوں کی طرف سے مسلمانوں کی نسل کشی اور مسلمانوں کی عبادت گاہوں کو تباہ کرنے، 27 واقعات  میں مسلمانوں کو ریاست سے خارج کرنے، سامان اور خدمات کی خریداری بند کرنے کرنے کا مطالبہ کیا۔

اسی طرح 2024 میں قانون سازی کے انتخابات منعقد کرنے والی ریاستوں میں تقریباً 93 واقعات رونما ہوئے، وشو ہندو پریشداور بجرنگ دل نے 2023 کی پہلی ششماہی میں 62 مسلم مخالف نفرت انگیز تقاریر کا انعقاد کیا، وزیر اعظم مودی نے وشو ہندو پریشداور بجرنگ دل تنظیم کا سختی سے دفاع کیا جب کانگریس نے کرناٹک میں اپنی انتخابی مہم کے ایک حصے کے طور پر بجرنگ دل پر پابندی کی تجویز پیش کی۔

شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ بجرنگ دل اور وی ایچ پی نے پولیس کے ساتھ مل کر بین المذاہب جوڑوں کو توڑنے اور لو جہاد کی مسلم مخالف سازش کو پھیلانے میں مدد کی ہے، نفرت انگیز واقعات کے انعقاد میں شامل دیگر تنظیموں میں ہندو جنجاگرتی سمیتی، انتراشٹریہ ہندو پریشد، ساکل ہندو سماج مہاراشٹر میں نفرت انگیز تقاریر کے انعقاد میں نمایاں طور پر ملوث رہی، ان کے لیڈر آر ایس ایس، وی ایچ پی اور بجرنگ دل جیسی تنظیموں سے وابستہ ہیں۔

لو جہاد اور لینڈ جہاد کی سازشی تھیوری کو پھیلانے میں سماج نے اہم کردار ادا کیا ہے اور  اس کے پروگراموں میں اکثر بولنے والے راجہ سنگھ اور سریش چوہانکے شامل ہیں، 30 مارچ کو ہندو تہوار رام نومی کے موقع پر مارچ کے دوران نفرت انگیز واقعات میں اضافہ ہوا ، فیسٹیول سے پہلے اور اس کے دوران ملک بھر میں نفرت انگیز تقریر کے 18 واقعات ہوئے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بی جے پی حکومت سن 2024 میں ہونے والے عام انتخابات میں ایک بار پھر اپنی کامیابی کو یقینی بنانے کے لیے نفرت انگیز تقریروں کے ذریعہ ہندو ووٹروں کی صف بندی کرنا چاہتی ہے۔