جنرل باجوہ کے مزید تہلکہ خیز انکشافات

جنرل باجوہ کے مزید تہلکہ خیز انکشافات
کیپشن: جنرل باجوہ کے مزید تہلکہ خیز انکشافات

ایک نیوز :صحافی شاہد میتلاکی سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کے دوران ہونے والی گفتگو پر مبنی کالم کا دوسرا حصہ بھی سامنے آگیا ہے ۔
شاہد میتلا کے کالم کے مطابق سابق آرمی چیف جنرل (ر)قمر جاوید باجوہ نے بتا یاجنرل فیض میرے پاس آئے اور کہا کہ عمران خان سے ایک دفعہ مل لیں۔میں نے جنرل فیض کو کہا اچھاانہیں کہیں میرے گھر آجائیں ۔جنرل فیض نے کہا نہیں آپ ایوان صدر میں مل لیں۔
صدر عارف علوی بھی مجھے بار بار عمران خان سے ملنے کا کہہ رہے تھے۔میں ایوان صدر چلا گیا تو حیر ان رہ گیا کہ عمران خان مجھ سے بہت اچھے طریقے سے ملے جیسے ان کو مجھ سے کوئی شکایت نہیں اور جیسے کوئی غیر معمولی بات نہ ہوئی ہو۔ میر ا خیال تھا کہ وہ گلہ کریں گےلیکن وہ بالکل نارمل تھے۔میں ان کی منافقت پر حیران تھا کیونکہ وہ عوام میں مجھ پر بھرپور تنقید کرتے تھے۔میں نے کہا آپ مجھے میر جعفر اور میر صادق کہتے ہیں ۔عمران خان صاف مکر گیا کہتا میں نواز اور شہباز کو کہتا ہوں ۔پھر کہتا کہ آپ ان کی حکومت گرادیں ،ان کو گھر بھیج دیں اور الیکشن کر وادیں ۔میں نے کہا کہ آپ تو اسمبلی میں ہی نہیں ہیں۔
 حکومت2سیٹوں پر کھڑی ہے ۔آپ اسمبلی جائیں پھر آپ کو فائدہ ہوگا ۔تو عمران خان کہنے لگے کہ بس آپ حکومت گرادیں اور الیکشن کروائیں تو میں نے عارف علوی کو اندربلا لیا جو اس سے پہلے باہر بیٹھے تھے اور انہیں کہا کہ انہیں سمجھائیں کہ کیسے حکومت گرا سکتے ہیں اور حکومت ختم ہونے کا انکو کوئی فائدہ نہیں ہوگا جب تک وہ اسمبلی نہیں جاتے ۔پھر عارف علوی نے بھی ان کو سمجھایا ۔ یہ ملاقات بے نتیجہ رہی۔

جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ حمزہ شہباز کو وزیر اعلیٰ بنانے پر شہباز شریف کی کلاس لی تھی۔شہباز شریف کو جو مرضی کہیں وہ خاموش رہتے ہیں کچھ رد عمل نہیں دیتے۔
سابق آرمی چیف نے کہا کہ میں بھی یہی چاہتا تھاکہ انتخابات ہوں اور اگلی حکومت فریش مینڈیٹ کے ساتھ فیصلے کرے لیکن آئی ایس آئی کے لوگوں کی بات ہوئی تو مولانا فضل رحمان اور آصف علی زرداری دونوں چاہتے تھے حکومت ڈیڑھ سال پورا کرے۔ اس کے علاوہ 10 اپریل کے بعد جنرل فیض نے مجھے مسلسل دو چیزیں کہنا شروع کردی تھیں ایک یہ کہ آپ الیکشن کرواکر جائیں۔دوسرا عمران خان آپ سے ملنا چاہتے ہیں،ان سے ملاقات کرلیں۔
جنرل باجوہ نے کہا کہ 9 مئی کو شہباز شریف اور ملک احمد خان میرے گھر آئے اورکہا کہ ہم نے الیکشن کروانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ملک احمد کہنے لگے کہ میں نے الیکشن کمیشن کے ساتھ بات کی ہے۔ الیکشن کمیشن مردم شماری اور حلقہ بندیاں پانچ اگست تک مکمل کرلے گا۔حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ اگرہم بجٹ نہیں دیتے ہیں تو پانچ ستمبر کو الیکشن کروا دیے جائیں اور اگر بجٹ پیش کرنا پڑا تو ہم پانچ اکتوبرکو الیکشن کروانے کے لیے تیار ہیں۔

سابق آرمی چیف نے کہا کہ یوں الیکشن کی تاریخ کا فیصلہ ہوگیا اور پی ٹی آئی کو بھی اس فیصلہ سے آگاہ کر دیا گیا۔ پی ٹی آئی کو کہا گیا کہ آپ لانگ مارچ کا اعلان نہ کریں۔ اس کے بعدشہباز شریف لندن چلے گئے۔ 19 مئی کو ملک احمد خان میرے گھر دوبارہ آئے انہوں نے بتایا کہ نواز شریف نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم الیکشن کروا رہے ہیں اور کل شہباز شریف استعفیٰ دے دیں گے۔ شہباز شریف نے عرفان صدیقی سے اختتامی تقریر بھی لکھوا لی تھی۔

شہباز شریف نے 20 مئی کو استعفیٰ دینا تھا ۔ابھی ملک احمد خان بیٹھے ہی تھے تو ڈی جی آئی ایس آئی ندیم انجم بھی آ گئے. انہوں نے کہا کہ اگر کل شہباز شریف استعفیٰ دیتے ہیں 25 مئی کو قطر میں آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کون کرے گا۔ حکومت سے درخواست کریں کہ شہباز شریف 10 دن بعد مستعفیٰ ہوں تاکہ آئی ایم ایف سے مذاکرات بھی ہو جائیں اور نگران سیٹ اپ بنانے کے لیے ہمیں دس دن کا وقت بھی مل جائے۔ ملک احمد نے جواب دیا کہ میاں نواز شریف فیصلہ کرچکے ہیں کہ کل شہباز شریف مستعفی ہوں گے تو اس سلسلہ میں مَیں ان سے بات نہیں کرسکتا۔بہتر ہے کہ آپ بات کریں یا ڈی جی آئی ایس آئی بات کریں۔