اردو کے نامور شاعر منور رانا 71 برس کی عمر میں انتقال کرگئے

اردو کے نامور شاعر منور رانا 71 برس کی عمر میں انتقال کرگئے
کیپشن: Renowned Urdu poet Manwar Rana passed away at the age of 71

ویب ڈیسک: ہم نہیں تھے  تو کیا کمی تھی یہاں، ہم نہ ہوں گے تو کیا کمی ہوگی۔ شاعری میں  ماں سے اظہار محبت وعقیدت کے پھول برسانے والے  اُردو کے نامور شاعر منور رانا دل کا دورہ پڑنے کے باعث 71 برس کی عمر میں انتقال کرگئے ہیں۔

منور رانا کئی ماہ سے علیل تھے اور لکھنو کے پی جی آئی ہسپتال میں زیر علاج تھے۔ وہ گردے اور دل کے امراض میں مبتلا تھے۔ ان کے بیٹے تبریز رانا نے میڈیا کو بتایا کہ وہ بیماری کی وجہ سے 14 سے 15 دن تک ہسپتال میں داخل رہے۔ 

انہیں پہلے لکھنؤ کے میڈانتا اور پھر ایس جی پی جی آئی میں داخل کرایا گیا۔ جہاں انہوں نے رات 11 بجے کے قریب آخری سانس لی۔ ‘منور رانا کافی عرصے سے علیل تھے جس کے باعث انہیں پی جی آئی کے آئی سی یو میں داخل کرایا گیا تھا۔ وہ طویل عرصے سے گلے کے کینسر میں مبتلا تھے۔

نامور شاعر کے پسماندگان میں اہلیہ، چار بیٹیاں اور ایک بیٹا شامل ہے۔

۔ منور کی پیدائش 26 نومبر 1952 کو اتر پردیش کے ضلع رائے بریلی میں ہوئی۔

۔ 2014 میں انہیں ان کی نظم شاہدبہ کے لیے ساہتیہ اکادمی ایوارڈ دیاگیا۔

۔ اگرچہ منور کی پیدائش اتر پردیش میں ہوئی تھی، لیکن انہوں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ کلکتہ، مغربی بنگال میں گزارا ہے۔

۔ منور اردو کے شاعر تھے، لیکن انھوں نے اپنے شعروں میں بنیادی طور پر اودھی اور ہندی الفاظ کا استعمال کیا، جس کی وجہ سے انھیں ہندوستانی عوام میں مقبولیت حاصل ہوئی۔

۔ منور عمدہ اسلوب کے شاعر تھے۔ ان کے قلم سے سب سے زیادہ محبت ماں کے لیے تھی۔

کسی کو بھر ملا حصے میں یا کوئی دکاں آئی 

میں گھر میں سب سے چھوٹا تھا میرے حصے میں ماں آئی

۔ اردو ادب میں ان کی مہارت کے لیے انھیں 2012 میں شہید ریسرچ انسٹی ٹیوٹ نے مٹی رتن ایوارڈ سے نوازا تھا۔

۔ 2014 میں ساہتیہ اکادمی ایوارڈ حاصل کرنے کے بعد، انہوں نے اسے واپس کر دیا اور حکومت سے کبھی کوئی ایوارڈ قبول نہ کرنے کی قسم کھائی۔

منور رانا کا حقیقی نام سید منور علی ہے۔ وہ 26؍ نومبر، 1952 کو اتر پردیش کے رائے بریلی میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام سید انور علی اور والدہ کا نام عائشہ خاتون ہے۔ منور رانا نے اپنی ابتدائی تعلیم شعیب ودھیالیہ اور گورنمنٹ انٹر کالج، رائے بریلی سے حاصل کی۔ اس کے آگے کی تعلیم کے لیے انھیں لکھنؤ بھیج دیا گیا جہاں ان کا داخلہ سینٹ جانس ہائی اسکول میں ہوا۔ قیام لکھنؤ کے دوران انھوں نے وہاں کے روایتی ماحول سے اپنی زبان و بیان کی بنیادیں پختہ کیں۔ اس کے بعد ان کے والد نے، جو روزگار کے پیش نظر کلکتہ منتقل ہوگئے تھے، انھیں 1968 میں کلکتہ بلا لیا، جہاں انھوں نے محمد جان ہائر سیکنڈری اسکول سے ہائر سیکنڈری کی تعلیم مکمل کی اور گریجویشن کی ڈگری کے لیے کلکتہ کے ہی امیش چندرا کالج میں بی کام کے لیے داخلہ لے لیا۔

گلستان شاعری میں سید منور علی نے خود کو 1969-70میں قلبی واردات ، احساسات اور جذبات کی چنگاری سے ’’منور علی آتش‘‘ بن کر متعارف کرایا۔ اس طرح میدان شعروسخن کے ابتدائی دنوں میں وہ پروفیسر اعزازؔ افضل کے حلقۂ تلمذ میں شامل ہوگئے اور ان سے اکتساب فیض کرتے ہوئے اپنی شعلہ بیانی کا بھرپور مظاہرہ کیا۔ ہرچندکہ انھوں نے اپنی عمر کے سولہویں سال میں پہلی نظم کہی جو محمد جان ہائر سیکنڈری اسکول کے مجلے میں چھپی لیکن بحیثیت شاعر ان کی پہلی تخلیق 1972 میں منور علی آتش کے نام سے کلکتہ کے ایک معیاری رسالہ ماہنامہ ’’شہود‘‘ میں شائع ہوئی۔ آگے چل کر منور رانا نے نازش پرتاپ گڑھی اور رازؔ الہٰ آبادی کے مشوروں سے اپنا تخلص بدلا اور ’’منور علی شاداں‘‘ بن کر غزلیں کہنے لگے۔ بعد ازاں انھوں نے جب والی آسیؔ سے شرف تلمذ حاصل کیا تو ان کے مشورے سے 1977 میں ایک مرتبہ پھر اپنا تخلص بدلا اور ’’منورؔرانا‘‘ بن گئے۔ اس طرح سید منور علی کو منور علی آتش سے منور علی شاداںؔ اور پھر منور رانا بننے تک پورے نو سال کا عرصہ لگ گیا۔ اس مدت میں انھوں نے مشق سخن جاری رکھی اور اپنی فکر کی پرواز کو اوج کمال تک پہنچایا۔

چلتی پھرتی ہوئی آنکھوں سے اذاں دیکھی ہے

میں نے جنت تو نہیں دیکھی ہے ماں دیکھی ہے

اس طرح میرے گناہوں کو وہ دھو دیتی ہے

ماں بہت غصے میں ہوتی ہے تو رو دیتی ہے

میں نے روتے ہوئے پونچھے تھے کسی دن آنسو

مدتوں ماں نے نہیں دھویا وہ دوپٹا اپنا

دنیا کے تمام رشتوں میں ’’ماں‘‘ کے رشتے کو نہایت مقدس اور پاکیزہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ منور رانا کا بھی اس رشتۂ عظیم سے نہ صرف دلی لگاؤ ہے بلکہ گہری انسیت بھی ہے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ محبت کے جذبوں کا اظہار آسان نہیں ہوتا لیکن منور رانا نے اس جذبے کا بھی خوب اظہار کیا ہے اور ہر ممکن موقعے پر ’’ماں‘‘ کے تصور کو نہایت خوبصورتی سے اپنے اشعار کے قالب میں ڈھالا ہے۔ منور رانا نے جس کثرت سے اپنی شاعری میں لفظ ’’ماں‘‘ کا استعمال کیا ہے، ان کے معاصر شعرا میں کسی اور نے نہیں کیا ہے۔

وہ اپنی زندگی میں کئی بار پاکستان آچکے ہیں اور کئی مشاعروں میں شرکت کرچکے ہیں۔