سپریم کورٹ نے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کی سزائے موت بحال کردی

سپریم کورٹ نے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کی سزائے موت بحال کردی
کیپشن: The Supreme Court reinstated the death sentence of former President General (retd) Pervez Musharraf

ایک نیوز: سپریم کورٹ نے سابق صدر جنرل (ریٹائرڈ) پرویز مشرف سے متعلق کیس کا فیصلہ  سناتے ہوئے  ان کی سزائے موت بحال کردی۔چیف جسٹس قاضی فائز نے فیصلہ لکھوایا۔ سپریم کورٹ نے پرویز مشرف کی خصوصی عدالت کی سزا درست قرار دے دی۔ فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ پرویز مشرف نے سپریم کورٹ میں اپیل نمبر 785 داٸر کی۔ 16جنوری 2020 کو اپیل داٸر ہوٸی۔ سلمان صفدر نے بتایا کہ مشرف 5فروری 2023کو انتقال کر گٸے۔ یہ اپیل  نومبر 2023میں سماعت کیلٸے مقرر ہوٸی۔ عدالت نے مشرف کے قانونی ورثان کو پاکستان اور بیرون ملک دستیاب ایڈریسز پر نوٹسز جاری کیے۔

سپریم کورٹ میں سابق صدر پرویزمشرف کی سزائے موت کیخلاف دائر درخواست پر سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں چار رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی۔ جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس امین الدین خان، جسٹس اطہر من اللہ بنچ میں شامل ہیں۔

وکیل حامد خان اور وکیل سلمان صفدر روسٹرم پر آگئے۔ حامد نے دلائل میں کہا کہ پرویز مشرف نے سزا کے خلاف اپیل دائر کر رکھی ہے جو کریمنل اپیل ہے۔ جبکہ ہماری درخواست لاہور ہائیکورٹ کے سزا کالعدم کرنے کے فیصلے کیخلاف ہے جو آئینی معاملہ ہے۔ دونوں اپیلوں کو الگ الگ کر کے سنا جائے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ موجودہ کیس میں لاہور ہائیکورٹ کے دائرہ اختیار اور اپیل دو الگ معاملات ہیں۔ پہلے پرویز مشرف کے وکیل سلمان صفدر کو سن لیتے ہیں۔

وفاقی حکومت نے پرویز مشرف کی سزا کے خلاف اپیل کی مخالفت کر دی۔ 

چیف جسٹس نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان سے استفسار کیا کہ آپ پرویز مشرف کی اپیل کی مخالفت کر رہے ہیں یا حمایت؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ پرویز مشرف کی اپیل کی مخالفت کر رہے ہیں۔

وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ سابق صدر پرویز مشرف کے اہلخانہ سے کوئی ہدایات نہیں اور نہ ہی اہلخانہ کو کیس بارے علم ہے۔ نومبر سے ابھی تک 10 سے زائد مرتبہ رابطہ کیا ہے۔ کیس بارے حق میں یا خلاف کوئی ہدایات نہیں دی گئیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ نے براہ راست بھی انکو نوٹسز جاری کیے تھے۔ سپریم کورٹ نے پرویز مشرف کے اہلخانہ کو اخبار اشتہار کے ذریعے نوٹس بھی کیا تھا۔ میں دو صورتوں میں عدالتی معاونت کرسکتا ہوں۔ آپ صرف قانونی صورتحال پر ہی عدالتی معاونت کرسکتے ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ مفروضوں کی بنیاد پر فیصلے نہیں ہونے چاہئیں۔ ورثاء کے حق کیلٸے کوٸی دروازہ بند نہیں کرنا چاہتے۔ عدالت 561اے کا سہارا کیسے لے سکتی ہے؟ 

سلمان صفدر نے کہا کہ اس عدالت کے اٹھائے اقدام کو سراہتا ہوں۔ مشرف کے ورثاء پاکستان میں مقیم نہیں ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کے لاہور ہاٸی کورٹ بارے تحفظات کیا ہیں؟ 

سلمان صفدر نے کہا کہ اس بارے آپکے چیمبر میں کچھ گزارشات ضرور کروں گا۔ چیف جسٹس نے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم کسی کو چیمبر نہیں بلاتے۔

عدالت نے فیصلہ سنانے کا عندیہ دے دیا:

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم شائد آج ہی اس کیس کا فیصلہ سنا دیں۔ عدالت نے پرویز مشرف کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا۔

چیف جسٹس قاضی فائز نے فیصلہ لکھوایا۔ سپریم کورٹ نے پرویز مشرف کی خصوصی عدالت کی سزا درست قرار دے دی۔ فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ پرویز مشرف نے سپریم کورٹ میں اپیل نمبر 785 دائر کی۔ 16جنوری 2020 کو اپیل دائرہوئی۔ سلمان صفدر نے بتایا کہ مشرف 5فروری 2023کو انتقال کر گئے۔ یہ اپیل  نومبر 2023میں سماعت کیلئے مقرر ہوئی۔ عدالت نے مشرف کے قانونی ورثان کو پاکستان اور بیرون ملک دستیاب ایڈریسز پر نوٹسز جاری کئے۔ اردو اور انگریزی اخبارات میں بھی اشتہار دیا گیا۔

سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا کہ  عدالت کے سامنے دو سوالات تھے۔ کیا مرحوم کے دنیا سے چلے جانے کے بعد اپیل سنی جا سکتی ہے، پہلا سوال۔ اگر سزائے موت برقرار رہتی ہے تو کیا مشرف کے قانونی ورثا مرحوم  کو ملنے والی مراعات کے حقدار ہیں، دوسرا سوال۔ فیصلے میں مزید کہا گیا کہ متعدد بار کوشش کے باوجود بھی مشرف کے ورثا سے رابطہ نہیں ہو سکا۔ ہمارے پاس کوئی آپشن نہیں ہے سوائے اس کے کہ سزائے موت برقرار رکھیں۔