مداخلت دیکھ کر کچھ نہ کرنیوالا جج گھر بیٹھ جائے،چیف جسٹس 

سپریم کورٹ میں ججزخط ازخود نوٹس کیس کی سماعت شروع 
کیپشن: In the Supreme Court, the hearing of the Judges Spontaneous Notice case has started

  ایک نیوز:6 ججز کے خط سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جو جج مداخلت دیکھ کر کچھ نہیں کر سکتا وہ گھر بیٹھ جائے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 6 رکنی لارجر بنچ نے کیس کی سماعت کی۔ جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس نعیم اختر افنان بنچ کا حصہ ہیں۔

عدالت نے اٹارنی جنرل سے الزامات کے جواب یا تجاویز طلب کر رکھی ہے ۔
سپریم کورٹ نے وکلاء تنظیموں کوبھی تحریری جواب جمع کروانے کی ہدایت کی تھی ۔

سپریم کورٹ بار نے ججز کیس میں اپنی تجاویز جمع کرا دیں۔

سپریم کورٹ بارکی تجاویزکےمطابق عدلیہ کے امور میں مداخلت کی کوئی گنجائش نہیں، سپریم کورٹ ازخودنوٹس کارروائی کے دوران ہائی کورٹ کے آئینی اختیارات کو بھی مدنظر رکھے،مناسب ہوگا کہ ججز کے خط کو ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ ادارہ جاتی طور پر حل کرتے،خط پبلک ہونے سے عدلیہ کی ساکھ عوام کی نظر میں متاثر ہوئی ہے، توہین عدالت کا قانون اعلیٰ عدلیہ کو ایسے معاملات میں کارروائی کا مکمل اختیار دیتا ہے، چھ ججز پر کن کیسز میں دبائو ڈالا گیا خط میں اس بات کا ذکر نہیں، اس بات پر بھی غور کیا جائے کہ چھ ججز نے توہین عدالت کی کارروائی کیوں نہیں کی،ہائی کورٹ ججز کا خط سپریم جوڈیشل کونسل کو پہنچنے سے پہلے لیک ہونے کی انکوائری کی جائے،ماتحت عدلیہ کے بغیر دبائو کام کرنے کیلئے فریم ورک بنایا جائے،اعلیٰ عدلیہ کے ججز کو کسی کمرشل سرگرمی کا حصہ نہیں بننا چاہیے، کسی جج کو عدلیہ کے اندر سے دبائو کا سامنا ہو تو متعلقہ چیف جسٹس کو آگاہ کرے، متعلقہ چیف جسٹس اگر مخصوص وقت میں کارروائی نہ کرے تو متاثرہ جج سپریم جوڈیشل کونسل سے رجوع کا اختیار رکھتا ہو۔

اٹارنی جنرل منصورعثمان اعوان نےکہاکہ گزشتہ سماعت کا تحریری حکمنامہ نہیں مل سکا، عدالت سے استدعا ہے کہ تحریری حکمنامہ جاری کیا جاے ، عدالتی حکمنامہ سے وزیراعظم آفس اور وزارت دفاع کو آگاہ کرنا ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نےعدالتی عملےسے استفسارکیاکہ کیا عدالتی حکمنامہ پر تمام ججز کے دستخط ہو گئے ؟ چیف جسٹس نےباقی رہ جانیوالے تین ججز سے دستخط کیلئے آرڈر دینے کی ہدایت کی۔
اٹارنی جنرل نے جواب جمع کرانے کیلئے وقت مانگ لیا ۔مجھے گزشتہ آرڈر کی کاپی ابھی نہیں ملی تھی،مجھے اس کیس میں وزیر اعظم سے بھی بات کرنا تھی۔
چیف جسٹس نےکہاکہ آرڈر پر تین دستخط ابھی بھی نہیں ہوئے، کمرہ عدالت میں ججز کو آرڈر کاپی دستخط کرنے کیلئے دی گئی۔
جسٹس منصورعلی شاہ نےکہا آپ کو وقت چاہیے ہو گا؟ 

اٹارنی جنرل نےکہاکہ مجھے کل تک وقت دے دیں۔
چیف جسٹس نےکہا آج کون دلائل دینا چاہے گا؟
 اسلام آباد ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے وکیل روسٹرم پر آگئے ہم 45 منٹ لیں گے، اپنے دلائل مکمل کر لیں گے۔
 وکیل اسلام آباد ہائیکورٹ بار اعتزاز احسن کی جانب سے خواجہ احمد حسین پیش ہوئے۔
 چیف جسٹس نےکہاہم پہلے وکلا تنظیموں کو سنیں گے۔

چیف جسٹس نےحکم دیاکہ دستخط شدہ آرڈر کی کاپی اٹارنی جنرل کو فراہم کریں۔

چیف جسٹس نےکہاکہ ایک معزز جج نے اضافی نوٹ لکھا وہ بھی پڑھ لیں، جسٹس اطہر من اللہ نے اضافی نوٹ لکھا۔
جسٹس اطہرمن اللہ نےکہاکہ میں معذرت چاہتا ہوں میری لکھائی اچھی نہیں ہے۔ 
جسٹس مسرت ہلالی نےکہاکہ جی واقعی لکھائی اچھی نہیں ہے۔

 چیف جسٹس پاکستان کا سابق صدر عابد زبیری سے مکالمہ ہم کسی پرائیویٹ شخص کو فریق نہیں بنائیں گے، پاکستان وکلاء بتائیں کتنا وقت درکار ہوگا دلائل کیلئے۔
جسٹس اطہرمن اللہ کااضافی نوٹ وفاقی حکومت کو اپنی پوزیشن واضح کرنی چاہیے،ہائیکورٹ کے ججز نے نشاندہی کی کہ مداخلت کا سلسلہ اب تک جاری ہے۔
 اٹارنی جنرل نے گزشتہ عدالتی کارروائی کا تحریری حکمنامہ پڑھنا شروع کردیا۔    

پاکستان بار کونسل کے وکیل ریاضت علی کےدلائل
 وکیل ریاضت علی نےموقف اختیارکیاکہ پاکستان بار کونسل اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججز کے معاملے پر جوڈیشل تحقیقات کرانا چاہتی ہے،ایک یا ایک سے زیادہ ججوں پر مشتمل جوڈیشل کمیشن بنا کر قصورواروں کو سزا دی جائے۔
جسٹس اطہرمن اللہ نےریمارکس دئیےکہ 2018/19 میں ہائی کورٹس کا سب سے بڑا چیلنج سپریم کورٹ کا مسائل پر خاموشی اختیار کرنا تھا، لگتا ہے کہ پاکستان بار کونسل نے جو سفارشات مرتب کی ہیں وہ ہائیکورٹس کے جواب کی روشنی میں نہیں کیں۔

وکیل پاکستان باراسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز نے سنگین الزامات لگائے ہیں جو جرم کے زمرے میں آتے ہیں، جرم فوجداری نوعیت کا ہے ایسا کرنے والوں کیخلاف کارروائی ہونی چاہیے۔
جسٹس اطہرمن اللہ نےکہا تمام ہائی کورٹس نے چھ ججز سے بھی زیادہ سنگین جوابات جمع کرائے ہیں،ایک ہائی کورٹ نے یہ بھی کہا ہے کہ مداخلت آئین کیساتھ کھلواڑ ہے،لگتا ہے پاکستان بار نے اپنی تجاویز ہائی کورٹس کے جوابات کو مدنظر رکھ کر نہیں تیار کیں،ایک ہائیکورٹ نے تو یہ کہا ہے آئین کو سبوتاژ کیا گیا، یہ مداخلت نہ فیض آباد دھرنا کیس سے رکی نہ کسی اور چیز سے، ججز نے ہائی لائٹ کیا کہ مداخلت ایک جاری سلسلہ اور رجحان ہے، آپ بتائیں ایسا کیا ڈر پیدا کیا جائے کہ یہ سلسلہ رکے؟ اٹارنی جنرل خود مان چکے ہیں 2018 میں کیا کچھ ہو رہا تھا۔2018 اور 2019 میں ہائیکورٹ کے آزاد ججز کیلئے بڑا چیلنج سپریم کورٹ کی ملی بھگت تھی۔ہم نے 76سال جھوٹ بولا ، سچ کو چھپایا ہے ، عوام کو سچ جاننے کا پورا حق ہے ، ملک کی اس عوام کو سب جواب دہ ہے، جسٹس اطہر من اللہ کا صدر سپریم کورٹ بار سے مکالمہ اگر کوئی جج کچھ نہیں کر سکتا تو گھر بیٹھ جائے۔

چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نےکہا ایسے ججز کو جج نہیں ہونا چاہیے جو مداخلت دیکھ کر کچھ نہیں کرتے۔

صدرسپریم کورٹ بارنےکہاہائیکورٹ بھی ماضی میں مداخلت پر خاموش رہی تو وہ بھی شریک جرم ہے۔

وائس چیئرمین سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن مداخلت پر سزاؤں کا قانون لانے کی سفارش کرتی ہے، اس معاملے سے عوام کے عدلیہ پر اعتماد کو دھچکا پہنچا ہے۔

چیف جسٹس نےکہاسپریم جوڈیشل کونسل آئینی ادارہ ہے، سپریم جوڈیشل کونسل کا چیئرمین ضرور ہوں لیکن میں پوری کونسل نہیں، سپریم جوڈیشل کونسل کے ارکان بنچ میں ہیں لیکن تین نہیں۔سوشل میڈیا پر ایک بمباری ہوتی ہے۔

وکیل شہزادشوکت  نےکہاکہ  ہم نے اپنی تمام پریس کانفرنس میں سوشل میڈیا پر ٹرولنگ کی مذمت ہے، اور اب ایک اتھارٹی بھی بن گئی ہے لیکن صحافی میرے پاس آ کر کہتے ہیں اظہارِ رائے پر پابندی لگائی جا رہی ہے۔

جسٹس اطہرمن اللہ نےکہا 2019 میں چیف جسٹس اور مجھ پر تنقید کی جاتی ہے لیکن ایک جج کو تنقید سے بے پرواہ ہو کر کام کرنا چاہیئے، تین نومبر 2007 کا اقدام سب سے بڑی توہین عدالت تھی لیکن اس پر کسی کو سزا نہیں ملی، آپ کیسے توقع کر سکتے ہیں کہ ایک ڈسٹرکٹ جج مداخلت کے خلاف آواز اٹھائے گا۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نےکہا سوشل میڈیا پر فیئر تنقید ہونی چاہیئے، لیکن لوگوں کو گمراہ نہیں کرنا چاہیئے۔سپریم کورٹ ججز کو خود مضبوط اور بہادر ہونا چاہیے،سب ججز کو اپروچ کیا جاتا ہوگا،مجھ سے بھی رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی، میں کسی کے دباو میں نہیں آیا۔جج کو مضبوط ہونا چاہیے اور ساتھ تحفظ کیلئے ایک نظام بھی ہونا چاہیے۔

جسٹس اطہرمن اللہ نےکہاامام ابو حنیفہ کو بادشاہ نے حکم عدولی پر جیل میں ڈال دیا تھا۔

چیف جسٹس  نےکہا ڈسٹرکٹ جج کے پاس بھی پاور ہوتی ہے مداخلت پر وہ کھڑا ہوجائے، زیادہ سے زیادہ اس جج کو نکال دیں گے وہ بھی عدلیہ خود نکال سکتی ہے، سپریم کورٹ کوئی ہدایات جاری کرے گی تو اس سے ماتحت عدلیہ کمزور ہوگی،کہا جائے گا اوپر سے احکامات ہورہے ہیں۔

جسٹس مسرت ہلالی نےکہاکہ ججز کو حلف کیساتھ دیانتدار ہونا چاہیے،اس ملک میں سر عام پھانسیاں دی گئیں کیا جرائم رک گئے،پھانسی کے باوجود جرائم میں اضافہ ہوا،ججز کے حلف میں سب کچھ شامل ہونا چاہیے جو اسے اندر سے مضبوط کرے۔

اسلام آباد بار ایسوسی ایشن وکیل احمدحسن نےکہاجب تک غیر ذمہ دارانہ رپورٹنگ کا نوٹس نہیں لیا جائے گا درست نہیں ہو گا،عدلیہ کی خرابی ہے کہ ہتک عزت کے مقدمات میں کتنا وقت لگ جاتا ہے۔

جسٹس منصورعلی شاہ نےکہا کوئی ایسا سسٹم بنانا چاہیے کہ اگر کچھ ہو جائے تو جیسے آپ وکلا سب اکٹھے ہو جاتے ہیں ایسی طرح ججز اکٹھے ہو جائیں،جب ججز اکٹھے کھڑے ہو جائیں تو کوئی کچھ کر ہی نہیں سکتا۔

وکیل احمد حسن نےکہاحساس معلومات کی سیکیورٹی کیلئےویلز میں ججز نے ایک انٹرانیٹ بنایا ہوا ہے ، ججز کو اپنے انٹر کمیونیکشن کو محفوظ کرنے کیلئے انتظام کرنا چاہیے،یہ میری پہلی رائے ہے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نےکہا اس پوائنٹ پر کوئی بات نہیں کر رہا کہ مداخلت ہوتی کیوں ہے،پہلے تسلسل سےمارشل لاء لگا کرتا تھا وہ رک گئے پھر 82 بی آگئی ، ج میں لاہور ہائیکورٹ کا چیف جسٹس رہا ہوں اگر کسی سول جج کو کوئی جوتا مار دیتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ مک مکا کر لیں،

چیف جسٹس نےکہاکہ ڈسٹرکٹ جج قتل کے مقدمات سنتے ہیں موت کی سزائیں سناتے ہیں ان پر بھی تو پریشر ہوتا ہے۔

جسٹس اطہرمن اللہ نےکہا جسٹس منصور علی شاہ نے درست کہا ہے کہ زیادہ خرابی ہمارے اپنے اندر ہے۔

وکیل احمد حسن نےکہاکہ پاکستان پہلا ملک نہیں جہاں ایسے اقدامات ہوئے،میں نے ایک فہرست لگائی ہے کن کن ممالک میں ایسا ہوا۔

 چیف جسٹس نےکہاکہ اس ملک میں جابر آکر کہتے رہے جو ہم کہتے ہیں وہ کرو، ایسے ہیروز تھے جنہوں نے آگے سے کہا خدا حافظ۔

وکیل احمد حسن نےکہا ہر چیز عدالت خود نہیں کرسکتی۔عدلیہ کی آزادی کی ذمہ داری صرف عدالتوں کی نہیں۔

چیف جسٹس نےکہاعدلیہ کی آزادی ہمارا فرض ہے،آپ نے حلف نہیں لیا میں نے لیا ہے،بہت سارے دباو ہو سکتے ہیں ہمیں تنخواہ ملتی اسی کام کی ہے۔

وکیل احمد حسن نےکہا  کوئی واحد ملک نہیں جہاں ایسے اقدامات ہو رہے ہیں۔یو ایس اے سمیت مختلف یورپی ممالک میں بھی ایسے واقعات ہوئےہیں۔

 چیف جسٹس نےکہا جو غلطی ہو اسکی نشاندہی کا ہمیشہ کہتا ہوں۔

جسٹس اطہرمن اللہ نےکہا چھ ججز کا خط ایک حقیقت ہے اسکو دیکھیں، ایسی صورتحال میں خوف کا تصور کیسے ہوگا،

جمال خان مندوخیل نےکہا ذاتی طور پر ہرجج اپنے آپ کو مظبوط کرلے کہ کوئی رابطہ کی کوشش نہ کرے،یا پھر کوئی ڈر ہوکہ کرے گا تو یہ ہوگا،اگر میں کمزور ہوں تو وہ کامیاب ہو جائے گا۔

جسٹس اطہرمن اللہ نےکہاہم یہ کہہ رہے ہیں مداخلت ہو بس ہمیں تگڑا ہونا چاہیے؟ 

چیف جسٹس نےکہا وکیل صاحب آپ دلائل دیں ورنہ ہم آپس میں لگے رہیں گے ۔

اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے وکیل احمدحسن نے شعر سنا دیا نظام مے کدہ بگڑا ہوا ہے ۔

معذرت کے ساتھ مے کدہ میں نظام کیسے بگڑ سکتا ہے،جسٹس منصور علی شاہ کا تبصرہ شعر میں سقم ہے۔

وکیل احمدحسن نےکہا اسی کو جام ملتا ہے جسے پینا نہیں آتا۔

اب سقم دور ہو گیا ہے جسٹس منصور علی شاہ کے تبصرے پر عدالت میں قہقہے

چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نےریمارکس دئیے کہ فرض کریں کہ مجھے دھمکی آتی ہے کہ اس کیس کا یہ فیصلہ کر دیں، میں شکایت دائر کروں وہ بہتر ہے یا وہ اختیار جو میں خود استعمال کر سکتا ہوں،میں اپنے اختیارات کسی کمیشن کو کیوں دوں؟

جسٹس اطہرمن اللہ نےریمارکس دئیے کہ  ہمارے سامنے بڑا سوال یہ ہے کہ آیا یہ ملک آئین کے تحت چل رہا ہے یا نہیں، گزشتہ سماعت پر پوچھا گیا کہ خفیہ ادارے کس قانون کے تحت چل رہے ہیں، مداخلت ہو ہی کیوں ؟ سیاسی جماعتیں مداخلت ختم نہیں کرنا چاہتیں، 2018 مداخلت سے کسی ایک سیاسی جماعت کو فائدہ ملا آج کسی اور کو مل رہا ہے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نےکہاسیاسی جماعتیں چاہتی ہیں کہ مداخلت ان کے لئے کی جائے۔

آپ کس معاملے کی تحقیقات چاہتے ہیں جسٹس اطہر من اللہ کا وکیل احمد حسن سے استفسار ۔

جسٹس اطہرمن اللہ نےکہاچھ ججز نے مشترکہ خط لکھا اور حتمی ذمہ داری تو وفاقی حکومت کی ہے،  کسی مہذب معاشرے میں اب تک سزائیں دی جا چکی ہوتیں، 

جسٹس جمال خان مندوخیل نےکہاوزیراعظم کو اسی لئے بلایا تھا کہ وہ پوچھتے کہ کس نے مداخلت کی ہے، کیا انہوں نے کچھ کیا۔

سپریم کورٹ نےعدلیہ میں مبینہ مداخلت کےکیس میں سماعت غیرمعینہ مدت تک ملتوی کردی، عدالت نےکہاآئندہ تاریخ بنچ کی دستیابی کی صورت میں دی جائے گی۔