سب خوش توہم خوش،8فروری کو انتخابات ضرور ہوں گے،چیف جسٹس

سب خوش توہم خوش،8فروری کو انتخابات ضرور ہوں گے،چیف جسٹس
کیپشن: سب خوش توہم خوش،8فروری کو انتخابات ضرور ہوں گے،چیف جسٹس

ایک نیوز: 90روز میں عام انتخابات سے متعلق کیس میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہاکہ سب خوش توہم خوش،انتخابات انشااللہ 8 فروری کو ہوں گے،درخواستگزار منیر احمد ایک مشکوک شخصیت ہیں،ان پر بہت سے سوالات ہیں۔

تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں 90روز عام انتخابات سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی، چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3رکنی بنچ نے سماعت کی،بنچ میں جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللہ شامل ہیں۔‏تحریک انصاف کے وکیل بیرسٹر علی ظفر اور اٹارنی جنرل روسٹرم پر آ گئے.

اٹارنی جنرل نے کہاکہ صدر اور الیکشن کمیشن کی ملاقات کے منٹس عدالت کو کچھ دیر بعد فراہم کر دیتے ہیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ منٹس دینے میں کتنا وقت لگے گا؟

اٹارنی جنرل نے جواب دیاکہ آدھے گھنٹے  میں منٹس فراہم کر دیں گے۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ ٹھیک ہے پھر کیس کو آخر میں ٹیک اپ کر لیتے ہیں،پہلے ہم روٹین کے مقدمات سن لیں، بعد میں انتخابات کیس سنیں گے۔

بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت میں کچھ دیر کے لیے وقفہ کر دیا۔

وقفے کے بعد کیس کی سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو  انتخابات سے متعلق ریکارڈ عدالت میں پیش کردیا گیا،چیف الیکشن کمشنر کا صدر پاکستان کو لکھا گیا خط عدالت میں پیش  کردیا گیا۔

اٹارنی جنرل خط عدالت کو پڑھ کر سنا رہے ہیں۔

صدر مملکت اور الیکشن کمیشن وفد ملاقات کے منٹس بھی عدالت میں پیش کردیئے گئے۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئےکہ عدالت میں پیش کیے گئے ریکارڈ پر صدر کے دستخط نہیں ہیں،صدر مملکت نے دستخط کیوں نہیں کیے؟پہلے ان دستاویز پر صدرر مملکت کے دستخط کروائیں، پھر آپکو سنتے ہیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ صدر نے اپنی رضامندی کا لیٹر الگ سے دیا ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ وہ رضامندی کا خط کہاں ہے؟۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ وہ بھی آجائے گا۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ ایوان صدر یہاں سے کتنا دور ہے؟

بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت میں ایک مرتبہ پھر وقفہ کر دیا۔

وقفے کے بعد کیس کی سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا یہ اصل کاپی ہے؟

اٹارنی جنرل جب کمرہ عدالت پہنچے تو چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ بہت دیر ہو گئی اٹارنی جنرل صاحب۔

اٹارنی جنرل نے صدرکی طرف سے انتخابات کی تاریخ کی دستخط شدہ کاپی عدالت میں پیش کردی۔

اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ الیکشن کمیشن نے انتخابات کا نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا ہے، اس موقع پر اٹارنی جنرل نے عام انتخابات 8 فروری کوکرانے کا الیکشن کمیشن کا نوٹیفکیشن بھی پڑھ کرسنایا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اگر سب خوش ہیں تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں، الیکشن کمیشن اور تمام فریقین کی رضامندی ہے، تمام ممبران نے متفقہ طورپر تاریخ پر رضامندی دی لیکن کسی آئینی شق کا حوالہ نہیں دیا۔

 اٹارنی جنرل  نےکہاکہ ایک اصل کاپی تین فوٹو کاپیز ہیں۔

چیف جسٹس پاکستان  نے ریمارکس دیئے کہ ہم اصل کاپی رکھیں گے۔

چیف جسٹس پاکستان نےریمارکس دیئے کہ کیا اب سارے خوش ہیں؟جس پر سب فریقین نے رضامندی دے دی۔

صدر کے دستخط کی کاپی عدالت میں پیش کرنے کے بعد چیف جسٹس نے حکم نامہ لکھوانا شروع کردیا اور کہا کہ تمام فریقین بیٹھ جائیں،حکم نامہ لکھوانے میں وقت لگے گا، تھک نہ جائیں۔

انتخابات کیس میں سپریم کورٹ کا حکمنامہ

 سپریم کورٹ نے انتخابات کیس کا حکمنامہ لکھوانا شروع کردیا۔

حکمنامہ میں کہا گیا ہے کہ 2نومبر 2023 کی ملاقات کے بعد انتخابات کی تاریخ پر اتفاق کیا گیا،قومی اسمبلی وزیراعظم کی ایڈوائس پر تحلیل کی گئی یہ تسلیم شدہ حقیقت ہے،قومی اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد صدر اور الیکشن کمیشن کے مابین اختلاف ہوا،وکیل پی ٹی آئی علی ظفر نے کہا کہ 13 ستمبر 2023 کو صدر نے الیکشن کمیشن کو خط لکھا،چاروں صوبائی ایڈوکیٹ جنرلز نے حکمنامہ پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔

حکمنامہ میں کہا گیا ہے کہ  قومی اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد الیکشن تاریخ پر صدر اور الیکشن کمیشن میں اختلاف اور تعطل پیدا ہوا،وکیل پی ٹی آئی نے صدر کا الیکشن کمیشن کو لکھا گیا خط بھی دکھا دیا،خط میں صدر نے کمیشن کو سیاسی جماعتوں اور صوبوں سے مشاورت کا کہا،خط میں کمیشن کو عدلیہ سے بھی رہنمائی لینے کا بھی کہا گیا ہے،صدر نے خط میں لکھا کہ الیکشن کمیشن صوبائی حکومتوں سے مشاورت کر کے تاریخ کا اعلان کرے۔

حکمنامہ  میں کہا گیا کہ صدر کے اس خط پر الیکشن کمیشن کی جانب سے کوئی جواب نہیں دیا گیا،سپریم کورٹ کا تاریخ دینے کے معاملے پر کوئی کردار نہیں،صدر مملکت اعلی عہدہ ہے،حیرت ہے کہ صدر مملکت اس نتیجے پر کیسے پہنچے،تاریخ دینے کا معاملہ سپریم کورٹ یا کسی اور عدالت کا نہیں،صدر مملکت کو اگر رائے چاہیے تھی تو 186آرٹیکل کے تحت رائے لے سکتے تھے۔

حکمنامہ میں کہا گیا ہے کہ ہر آئینی آفس رکھنے والا اور آئینی ادارہ بشمول الیکشن کمیشن اور صدر آئین کے پابند ہیں،آئین کی خلاف ورزی کے سنگین نتائج ہوتے ہیں،صدر مملکت اور الیکشن کمیشن کی وجہ سے غیر ضروری طور پر معاملہ سپریم کورٹ آیا،سپریم کورٹ آگاہ ہے ہم صدر اور الیکشن کمیشن کے اختیارات میں مداخلت نہیں کر سکتے،انتخابات کی تاریخ کا اعلان نہ کرنے پر پورا ملک تشویش کا شکار ہوا۔

حکمنامہ میں کہا گیا ہے کہ ‏سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ صدر مملکت اور الیکشن کمیشن اپنے اپنے دائرہ اختیار میں رہیں، اعلیٰ آئینی عہدہ ہونے کے ناطے صدر مملکت کی ذمہ داری زیادہ بنتی ہے،یہ باتیں کی گئیں کہ ملک میں انتخابات کبھی نہیں ہوں گے،یہ آئین کی سکیم ہے کہ سپریم کورٹ کو یہ اختیار نہیں ہے،سپریم کورٹ صرف سہولت کار کے طور پر صدر مملکت اور الیکشن کمیشن کے درمیان مشاورت کا کہہ سکتی ہے،یہ عدالت صرف یہ کہہ سکتی ہے کہ ہر ادارے اپنی حدود میں رہ کر کام کریں،صدر مملکت یا الیکشن کمیشن دونوں پر بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے،‏ہم صرف یہ چاہتے تھے صدر مملکت اور الیکشن کمیشن کی سہولت کاری کریں۔

حکمنامہ میں کہا گیا ہے کہ انتخابات کے سازگار ماحول پر بہتری ہر شہری کا بنیادی حق ہے،یہ ذمہ داری اُن پر عائد ہوتی ہے جنہوں نے یہ حلف اُٹھا رکھا ہے،چیف الیکشن کمشنر، ممبران اور صدرمملکت حلف لیتے ہیں،عوام کو صدر مملکت یا الیکشن کمیشن آئین کی عملداری سے دور نہیں رکھ سکتے،حادثاتی طور پر پاکستان کی تاریخ میں 15 سال آئینی عملداری کا سوال آیا۔

حکمنامہ میں کہا گیا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم نہ صرف آئین پر عمل کریں بلکہ ملکی آئینی تاریخ کو دیکھیں،آئینی خلاف ورزی کا خمیازہ ملکی اداروں اور عوام کو بھگتنا پڑتا ہے،عدالتوں کو ایسے معاملات کا جلد فیصلہ کرنا پڑے گا،قومی اسمبلی اس وقت تحلیل ہوئی جب وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد آئی،وزیراعظم کو قومی اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار نہیں تھا،اس وقت کے وزیراعظم نے اسمبلی تحلیل کر کے آئینی بحران پیدا کر دیا،ہم نے صدر کی ایڈوائس کے بغیر پی ٹی آئی حکومت میں قومی اسمبلی تحلیل کرنے پر از خود نوٹس لیا۔

حکمنامہ میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ نے متفقہ فیصلہ کیا کہ پی ٹی آئی دور میں قومی اسمبلی کی تحلیل کا فیصلہ غیر آئینی تھا،اس وقت کے وزیر اعظم اور صدر مملکت نے جو کیا وہ ان کے اختیار میں نہیں تھا،اس فیصلے میں 2 ججز نے صدر مملکت کے نتائج پر بات کی،اس فیصلہ میں کہا گیا کہ عوامی منتخب نمائندوں کو عدم اعتماد پر ووٹ ڈالنے سے روکا گیا،اسمبلی تحلیل کیس میں ایک جج نے کہا کہ صدر مملکت پر پارلیمنٹ آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی کرے،عجیب بات ہے صدر مملکت نے وہ اختیار استعمال کیا جو ان کا نہیں تھا،عجیب بات ہے صدر مملکت نے وہ اختیار استعمال نہیں کیا جو انہیں کرنا چاہیے تھا۔

حکمنامہ میں مزید کہا گیا کہ عوام پاکستان حقدارہیں کہ ملک میں عام انتخابات کروائے جائیں،ہم محسوس کر رہے ہیں کہ ہمارا کردار صرف سہولت کاری کا ہے،‏انتخابات کا معاملہ تمام فریقین کی رضامندی سے حل ہو چکا ہے، 8 فروری کو عام انتخابات کی تاریخ پر اتفاق ہوا ہے،‏آئین پر شبخون مارنے کی تاریخ سے سیکھنا ہوگا کہ اِس کے عوام اور ملکی جغرافیائی حدود پر منفی اثرات پڑے،اٹارنی جنرل نے بھی 8 فروری کو عام انتخابات کے انعقاد پرکوئی عتراض نہیں کیا،صدر مملکت اور الیکشن کمیشن نے عام انتخابات کیلئے پورے ملک کی تاریخ دے دی،وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتوں نے اتفاق کیا کہ انتخابات کا انعقاد بغیر کسی خلل کے ہو گا،ہم نے انتخابات کے انعقاد کیلئے سب کو پابند کر دیا،کوئی رہ تو نہیں گیا۔

90دن انتخابات کیس میں سپریم کورٹ نے اپنا حکم نامہ لکھوا دیا۔سپریم کورٹ نے حکمنامہ کے ساتھ تمام درخواستیں نمٹا دی۔