اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے زیراہتمام مارگلہ ڈائیلاگ کا اعلامیہ جاری 

اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے زیراہتمام مارگلہ ڈائیلاگ کا اعلامیہ جاری 
کیپشن: Declaration of Margalla Dialogue under the auspices of Islamabad Policy Research Institute

ایک نیوز: اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے زیراہتمام مارگلہ ڈائیلاگ کا علامیہ جاری کردیا گیا ہے۔ 

اعلامیے کے مطابق 15 اور 16 نومبر کو اسلام آباد میں ملک کے اہم تھنک ٹینک اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (IPRI) کی جانب سے مارگلہ ڈائیلاگ کا انعقاد کیا گیا۔

بین الاقوامی اور ملکی مقررین و شرکاء میں سفارت کار، پالیسی ساز، پریکٹیشنرز، ماہرینِ اقتصادیات اور میڈیا پرسنز شامل تھے۔

تقریب کے پہلے سیشن کا افتتاح صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی نے کیا۔ 

صدر مملکت نے نشاندہی کی کہ موجودہ دور کی تعریف بڑی طاقتوں کے باہمی مقابلے کی وجہ سے پیدا ہونے والی جیوپولیٹیکل تبدیلیوں کے ساتھ کی جا سکتی ہے۔

صدر مملکت نے دنیا کے نظام کے ارتقاء پر تفصیلی گفتگو کی۔

صدر مملکت نے پائیدار امن اور خوشحالی کے لیے تجارت، رابطوں اور شراکت داری کو ترجیح دینے پر زور دیا۔

مارگلہ ڈائیلاگ کے افتتاحی اجلاس میں وزیر اعظم پاکستان کی جانب سے "ہندوستانی اقلیتوں پر مظالم" کے ڈوزیئر کی نقاب کشائی بھی کی گئی۔

ڈوزئیر میں ہندوستان میں مظالم کی صورتحال کو غیر متنازعہ حقائق اور اعداد و شمار کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔

اپنے خطاب میں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ خطے میں سیکیورٹی کی خراب صورتحال کی وجہ بھارتی ہٹ دھرمی ہے۔ بھارت کا رویہ اقلیتوں کے خلاف دہشت گردی کے مترادف ہے۔

اس موقع پر قومی سلامتی، بین الاقوامی امور اور میڈیا کے ماہرین نے مختلف اجلاس میں اپنے خیالات کا اظہار بھی کیا۔ 

ڈاکٹرمعید یوسف نے کہا کہ قومی سلامتی کی پالیسی تمام سرکاری محکموں اور وزارتوں کے ساتھ ساتھ فوج کی آراء کو شامل کر کے بنائی گئی تھی۔

فہد حسین نے کہا کہ پاکستان کو زیرو سم گیم سے نکل کر ملک میں استحکام کے لیے کام کرنا چاہیے۔

سابق سفیر آصف درانی نے کہا کہ ظاہر شاہ کی چار دہائیوں کے علاوہ مغربی افغانستان نے کبھی امن نہیں دیکھا۔ تہران براہ راست پابندیوں کی زد میں ہے جبکہ اسلام آباد کو بالواسطہ پابندیوں کا سامنا ہے۔ پاکستان کے لیے چین ہی امید کی کرن ہے۔ پاکستان نے تمام مشکل حالات کا سامنا کیا ہے، جو اس کی لچک کا ثبوت ہے۔ بھارت میں انتخابات کے موقع پر ہندوتوا نظریات کا سامنا کرنا پاکستان کے لیے ایک مشکل امر ہے۔

سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ پاکستان کو پڑوسیوں سے دوستی اور ورکنگ ریلیشن شپ رکھنی چاہیے۔

سابق وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا کہ ہم قرضوں کے جال میں پھنسے ہوئے ہیں اور قرض کی سروسنگ کی ادائیگی کر رہے ہیں۔ ساتویں نیشنل فنانس کمیشن ایوارڈ (این ایف سی) پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ 2018 سے 2022 تک پاکستان کو 10 کھرب روپے سے زائد کی رقم کی فراہمی میسر تھی۔ عالمی تجارت میں پاکستان کا حصہ 0.13 فیصد ہے۔

سینیئر ایڈوائزر یو ایس آئی پی ڈینیئل مارکی نے کہا کہ ٹی ٹی پی پاکستان کے لیے سب سے بڑا سیکیورٹی خطرہ ہے۔

لیفٹیننٹ جنرل عامر ریاض نے کہا کہ بھارت کے ساتھ سیاسی و سفارتی مذاکرات کی عدم موجودگی صورتحال کو مزید پیچیدہ بناتی ہے۔

میرابراہیم رحمان نے کہا کہ میڈیا نے سپریم کورٹ کے حکم پر پیمرا کے ساتھ بیٹھ کر ضابطہ اخلاق تیار کیا۔ اس پر عمل پیرا ہونے کی بھی ضرورت ہے۔

مارگلہ ڈائیلاگ دو دن جاری رہنے کے بعد 16 نومبر کو اختتام پذیر ہوا۔