شوکت عزیز صدیقی کیس: جنرل(ر) فیض حمید، بریگیڈیئر(ر)عرفان رامے کو نوٹس جاری

سپریم کورٹ: سابق جج شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کیخلاف براہ راست سماعت
کیپشن: Supreme Court: Direct hearing against dismissal of former judge Shaukat Aziz Siddiqui

ایک نیوز:اسلام آباد ہائیکورٹ معزول جج شوکت عزیز صدیقی کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے جنرل ریٹائرڈ فیض حمید، بریگیڈیئر ریٹائرڈ عرفان رامے کو نوٹس جاری کردیا۔ سابق چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ انور کانسی اور سابق رجسٹرار سپریم کورٹ ارباب عارف کو بھی نوٹس جاری کردیا گیا۔کیس کی سماعت براہ راست نشر کی گئی۔

عدالت نے حکمنامے میں لکھا ہے کہ تین افراد جنہیں شوکت عزیز صدیقی نے فریقین بنایا تھا ان کا براہ راست تعلق نہیں۔ جنرل ریٹائرڈ قمر جاوید باجوہ، سابق بریگیڈیئر (ر) طاہر وفائی، بریگیڈیئر فیصل مروت کو نوٹس جاری نہیں کیا گیا۔

سپریم کورٹ میں معزول جج اسلام آباد ہائی کورٹ شوکت صدیقی کی برطرفی کے خلاف درخواست پر سماعت کی۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے کیس پر سماعت کی۔ جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس عرفان سعادت خان بینچ کا حصہ تھے۔

شوکت صدیقی کی برطرفی سے متعلق سماعت براہ راست دکھائی گئی، سماعت سپریم کورٹ کی ویب سائٹ، یوٹیوب پر براہ راست نشر کی گئی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ شوکت عزیز صدیقی کے الزامات کیا درست ہیں؟ شوکت عزیز صدیقی کو ان الزامات پر مبنی کی گئی تقریر پر برطرف کیا گیا۔ سوچ کر جواب دیں کہ کیا آپ کے الزمات درست ہیں۔ کیا وہ جنرل جن کو آپ فریق بنانا چاہتے ہیں وہ خود 2018 کے انتخابات میں اقتدار میں آنا چاہتے تھے؟ اگر شوکت عزیز صدیقی کے الزامات درست ہیں تو وہ جنرلز کسی کے سہولت کار بننا چاہ رہے تھے۔ جس کی یہ جنرل سہولت کاری کر رہے تھے وہ کون تھا؟ 

حامد خان نے کہا کہ میرے لگائے گئے الزامات درست ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ ہمارے سامنے آرٹیکل 184 تین کے تحت آئے ہیں۔ یہ بھی یاد رکھیں کہ اصل دائرہ اختیار کے تحت کیا ہوسکتا ہے۔ سہولت کاروں کو فریق بنا لیا ہے تو فائدہ اٹھانے والے کو کیوں نہیں بنایا؟ 

شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ فائدہ کس نے لیا ایسی کوئی بات تقریر میں نہیں تھی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 184/3 کی درخواست میں عدالت کا اختیار شروع ہوچکا ہے۔ فوجی افسر کسی کو فائدہ دے رہے تو وہ بھی اس جال میں پھنسے گا۔

وکیل حامد نے دلائل دیے کہ فوج شاید مرضی کے نتائج لینا چاہتی تھی۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایک امیدوار کو سائیڈ پر اسی لیے کیا جاتا ہے کہ من پسند امیدوار جیتے۔ شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ فوج نے اپنے امیداواروں کو جیپ کا نشان دلوایا تھا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کبھی تو ملک میں سچ کی جان جانا ہی ہے۔ حامد خان نے کہا کہ ستر سال سے ملک میں یہی ہو رہا ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ کیا ستر سال سے جو ہورہا ہے اس کا ازالہ نہ کریں؟ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ بہت سنگین الزامات لگاٸے گٸے ، انکے سنگین نتاٸج بھی ہو سکتے ہیں۔ کیا آپ ہمیں استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ ایک مقصد کیلٸے ہم استعمال نہیں ہونگے۔ فوج ایک آزاد ادارہ ہے یا کسی کے ماتحت ہے؟ فوج کو چلاتا کون ہے؟ 

وکیل حامد خان نے ریمارکس دیے کہ فوج حکومت کے ماتحت ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ حکومت فرد نہیں ہے۔ جو شخص فوج کو چلاتا ہے اس کا بتائیں۔ جب آپ ہمارے پاس آئیں گے تو ہم آئین کے مطابق چلیں گے۔ یہ آسان راستہ نہیں ہے۔ شوکت عزیز صدیقی نے جو سنگین الزامات لگائے انکے نتائج بھی سنگین ہونگے۔ سپریم کورٹ کو کسی کے مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ہمارے کندھے استعمال کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم کسی ایک سائیڈ کی طرف داری نہیں کریں گے۔ 

بارکونسل کے وکیل صلاح الدین نے کہا کہ سابق جج نے اپنے تحریری جواب میں جن لوگوں کا نام لیا ہم انکو فریق بنا رہے ہیں۔ شوکت عزیز صدیقی نے بانی پی ٹی آئی سمیت کسی اور کو فائدہ دینے کی بات نہیں کی۔ مفروضے پر ہم کسی کو فائدہ پہنچانے کیلئے کسی کا نام نہیں لے سکتے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس کا مطلب ہے کہ شوکت عزیز صدیقی کے الزامات بھی مفروضے ہیں۔

چیف جسٹس کا بار ایسوسی ایشن کے وکیل صلاح الدین سے مکالمہ:

چیف جسٹس نے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کیا کسی کا بھی نام لکھ دیں تو اسے نوٹس کر دیں۔ کیا شوکت صدیقی بیرسٹر صلاح الدین کا نام لکھ دیں تو آپ کو بھی نوٹس کر دیں؟ کیا ہمارے کندھے استعمال کرنا چاہ رہے ہیں؟ نوٹس جاری کر کے بلاوجہ لوگوں کو تنگ بھی نہیں کرنا چاہیے۔ کس سیاسی جماعت کو نکالنے کے لیے یہ سب ہوا؟ 

بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ جوڈیشل سسٹم پر دباؤ ڈال کر نواز شریف کو نکالا گیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس سے فائدہ کس کا ہوا؟ کیا سندھ بار یا اسلام آباد بار کو فائدہ دینے کے لیے یہ ہوا؟ 

بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ ہم نے انکوائری کی درخواست کی تاکہ حقائق سامنے آئیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر سندھ بار شوکت صدیقی کی ہمدردی میں آئی کہ ان کو پنشن مل سکے تو یہ 184 تھری کا دائرہ کار نہیں بنتا۔ ہمیں نا بتائیں کہ انکوائری کریں یا یہ کریں۔ آپ معاونت کریں جو کرنا ہے ہم کریں گے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ مسئلہ یہ کہ عدالتی نظام کو استعمال کرنے کا الزام ہے۔ ہمارے بندے کو استعمال کر کے کیوں کہا گیا کہ نواز شریف انتخابات سے پہلے باہر نا آئے؟ 

وکیل صلاح الدین احمد نے کہا کہ یہ الزام فیض حمید پر ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ بار کونسلز کیوں اس کیس میں آئیں؟ وکیل صلاح الدین احمد نے کہا کہ ہم تحقیق چاہتے ہیں کہ کیا واقعی شوکت صدیقی کی برطرفی بانی پی ٹی آئی کو فائدہ پہنچانے کے لیے ہوئی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم طریقے سے چلیں گے۔ شوکت صدیقی کو پنشن تو سرکار ویسے بھی دے دے گی۔ شوکت صدیقی 62 سال سے اوپر ہو چکے واپس بحال تو نہیں ہو سکتے۔ سسٹم میں شفافیت لا رہے ہیں 10 سال پرانے کیسز مقرر کر رہے ہیں۔ 

چیف جسٹس نے کہا کہ ’ابھی تک آپ نے جنرل فیض حمید کا نام ہی ’اسٹیبلش‘ کیا ہے۔ اب جنرل باجوہ کا اس میں کیا کردار بنتا ہے، انھیں ہم کیوں نوٹس جاری کریں؟

سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل کو طلب کر لیا:

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر مسئلہ صرف پنشن کا ہے تو سرکار سے پوچھ لیتے ہیں آپ کو دے دیں گے۔ اگر پاکستان کی تاریخ درست کرنا چاہتے ہیں تو بتا دیں ہم آپ کی مدد کرنے کو تیار ہیں۔ مقصد صرف پنشن ہے تو ٹھیک ہے وہ مل جائے گی ہم کسی کو بلانے کی زحمت کیوں دیں؟ 

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آپ کہتے ہیں یہاں لوگ آلے کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ آلے کے طور پر استعمال کون کرتا ہے؟ ماضی میں جو ہوتا رہا وہ سب ٹھیک کرنا ہے۔ 

حامد خان نے دلائل میں کہا کہ آپ نے اسٹیبلشمنٹ کا نام لینے سے روکا جب کہ اس ملک کی حقیقت یہی ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہمارے منہ میں الفاظ نا ڈالیں۔ یہ آئینی عدالت ہے یہاں آئینی زبان استعمال کریں۔ ہمارا مؤقف واضح ہے کہ کہاں سیاسی دائرہ اختیار ختم اور عدالتی دائرہ شروع ہوتا ہے۔ آپ کا کیس کب سے مقرر نہیں ہوا یہ الزام ہمارے سامنے کھڑے ہو کر لگائیں ہم معذرت کریں گے۔ الیکشن کی تاریخ سے متعلق سیاسی جماعت آئی تو 12 روز میں ہم نے فیصلہ کیا۔ ملک میں کب اتنی جلدی کیس کا فیصلہ ہوا ہے؟ ہم نے آئینی اداروں کو حکم دیا کہ انتخابات کرانے کی ذمہ داری پوری کریں۔ مسئلہ یہ ہے کوئی ادارہ اپنا کام کرنے کو تیار نہیں۔ شوکت عزیز صدیقی نے زیادہ نام فیض حمید کا لیا ہے۔ قمر باجوہ سے متعلق گفتگو تو سنی سنائی ہے۔ قمر باجوہ نے شوکت عزیز صدیقی سے براہ راست کوئی بات نہیں کی تھی۔ 

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ کیا چیف جسٹس ہائی کورٹ نے وہ بنچ بنایا تھا جو فیض حمید چاہتے تھے؟ حامد خان نے کہا کہ جو فیض حمید چاہتے تھے وہ ہوا۔ فیض حمید چاہتے تھے الیکشن 2018 سے پہلے نوازشریف کی ضمانت نہ ہو۔

جیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اب آپ خود معاملہ الیکشن 2018 تک لے آئے ہیں۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ نوازشریف کی اپیل پر کیا فیصلہ ہوا؟ وکیل حامد خان نے کہا کہ اپیلوں پر ابھی فیصلہ ہوا اور نوازشریف بری ہوگئے ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جنرل باجوہ سے تو کڑی نہیں جڑ رہی۔ آپ کہتے ہیں کہ فیض حمید جنرل باجوہ کے کہنے پر آئے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ پر تو براہ راست الزام ہی نہیں۔ آج کل تو لوگ کسی کا نام استعمال کر لیتے ہیں۔ رامے بھی اس کیس سے غیر متعلقہ ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہوسکتا ہے میرا بھی نام کوٸی استعمال کر رہا ہو۔ جن فریقین سے براہ راست لنک نہیں جڑ رہا انہیں نوٹس کیسے کریں؟ دستاویز کے مطابق فیض حمید اور بریگیڈیئر رامے کیساتھ کڑی ملتی ہے۔ ان شخصیات سے درخواستگزار کی ڈاٸریکٹ بات چیت ہوٸی تھی۔ کیا اسوقت کے اسلام آباد ہاٸی کورٹ کے چیف جسٹس سے  براہ راست بات ہوٸی تھی؟ 

شوکت صدیقی کے وکیل نے کہا کہ سابق چیف جسٹس انور کانسی سے تمام صورتحال پر گفتگو ہوٸی تھی۔ سابق چیف جسٹس کو خط بھی لکھا تھا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے آج کی سماعت کا حکمنامہ لکھوانا شروع کر دیا:

سپریم کورٹ نے جنرل ریٹائرڈ فیض حمید، بریگیڈیئر ریٹائرڈ عرفان رامے کو نوٹس جاری کردیا۔ سابق چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ انور کانسی اور سابق رجسٹرار سپریم کورٹ ارباب عارف کو بھی نوٹس جاری کردیا گیا۔

عدالت نے حکمنامے میں لکھا ہے کہ تین افراد جنہیں شوکت عزیز صدیقی نے فریقین بنایا تھا ان کا براہ راست تعلق نہیں۔ جنرل ریٹائرڈ قمر جاوید باجوہ، سابق بریگیڈیئر (ر) طاہر وفائی، بریگیڈیئر فیصل مروت کو نوٹس جاری نہیں کیا گیا۔

شوکت عزیز کے وکیل حامد خان نے آئی ایس آئی کے بریگیڈیئر عرفان رامے اور بریگیڈیئر فیصل مروت کو بھی فریق بنانے کی استدعا کی۔ سابق چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ انور خان کاسی اور سپریم کورٹ کے سابق رجسٹرار ارباب محمد عارف کو بھی نوٹس بھیج دیا ہے۔

کیس کی سماعت سرما کی تعطیلات کے بعد ہوگی۔

شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کا معاملہ

واضح رہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج شوکت عزیز صدیقی کو 11 اکتوبر 2018 کو خفیہ اداروں کے خلاف تقریر کرنے پر عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے اُس وقت کے سینیئر جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے 21 جولائی 2018 کو راولپنڈی بار میں خطاب کے دوران حساس اداروں پر عدالتی کام میں مداخلت کا الزام عائد کیا تھا۔

سابق جج شوکت عزیز صدیقی کے بیان پر پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے بھی رد عمل سامنے آیا تھا جس میں ریاستی اداروں پر لگائے جانے والے الزامات کی تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

شوکت عزیز صدیقی نے عہدے سے ہٹانے کے سپریم جوڈیشل کونسل کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل بھی دائر کر رکھی تھی۔