پی ٹی آئی نے نیب ترامیم ڈیزائن کیں، اپنی ہی ترامیم چیلنج کرنا بدنیتی ہے، مخدوم علی خان

پی ٹی آئی نے نیب ترامیم ڈیزائن کیں، اپنی ہی ترامیم چیلنج کرنا بدنیتی ہے، مخدوم علی خان
کیپشن: PTI designed NAB amendments, it is malicious to challenge its own amendments, Makhdoom Ali Khan(file photo)

ایک نیوز: نیب ترامیم کیس کی سماعت کے دوران وکیل مخدوم علی خان نے اپنے دلائل میں کہا کہ پی ٹی آئی نے آرڈیننس کے تحت خود نیب ترامیم ڈیزائن کیں۔ اپنی ہی ترامیم چیلنج کرنا بدنیتی ہے۔

تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کے خلاف عمران خان کی درخواست پر سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ اٹارنی جنرل پاکستان شہزاد عطا الہی نے عدالتی سوالات پر دلائل دیے۔ 

اپنے دلائل میں ان کا کہنا تھا کہ عدالت نے پی ٹی آئی ممبرز کی تنخواہوں سے متعلق سوال کیا تھا۔ قومی اسمبلی کے ایک ممبر کی مجموعی تنخواہ ایک لاکھ 88 ہزار ہے۔ پی ٹی آئی کے ممبران قومی اسمبلی نے اپریل سے کوئی تنخواہ وصول نہیں کی۔ پی ٹی آئی کے ممبران نے سفری اخراجات اور لاجز سمیت دیگر مراعات لیں۔ قومی اسمبلی ان معاملات کو دیکھ رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا پر عدالتی ریمارکس کے متعلق ایک خط لکھا ہے۔ سوشل میڈیا پر ہونے والی غلط رپورٹنگ پر بات کرنا چاہتا ہوں۔ چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ میں نے آپ کا خط پڑھا ہے اور آپ کی کاوش کو سراہتے ہیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ میرا کام نہیں لیکن یہ جانتے ہوئے کہ تنقید کا اگلا ہدف بن سکتا ہوں جو مجھے مناسب لگا میں نے کیا۔ سپریم کورٹ میڈیا رپورٹنگ سے متعلق گائیڈلائنز دو فیصلوں میں جاری کر چکی ہے۔ مسئلہ الیکٹرانک یا پرنٹ میڈیا کا نہیں ہے۔ سوشل میڈیا پر کوئی قوانین لاگو نہیں ہوتے۔ اس کو میں فیک نیوز نہیں کہوں گا۔ ایک ایجنڈے کی تحت سوشل میڈیا پر اداروں کو اداروں کے خلاف لڑانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ عدالت اس معاملے کو دیکھ سکتی ہے۔ 

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے سمجھداری اور ذمہ داری کا ثبوت دیا ہے۔ عدالتی کارروائی سے کچھ غلط معلومات منسوب کی گئیں۔ جو رپورٹ ہوا وہ نا صرف سیاق و سباق سے ہٹ کر تھا بلکہ جانبدارانہ بھی تھا۔ جو رپورٹ ہوا اس پرتحمل اور برداشت کا مظاہرہ کر رہا ہوں۔ میڈیا کے دوستوں کو عدالت کی طرف سے رد عمل نا آنے کو احترام سے دیکھنا چاہیے۔ سپریم کورٹ کی 2019 کا فیصلہ میڈیا کنٹرول کی بات کرتا ہے۔ میں میڈیا کنٹرول پر نہیں، باہمی احترام پر یقین رکھتا ہوں۔

مخدوم علی خان نے اپنے دلائل میں کہا کہ پی ٹی آئی نے مستعفی ہونے کے بعد استعفوں کی منظوری کے لیے اسلام آبادہائیکورٹ سے رجوع کیا۔ پی ٹی آئی نے پھر استعفوں کی منظوری کے خلاف لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کیا۔ ایک ہی وقت میں پی ٹی آئی کی استعفوں کی منظوری اور منظور نہ کرنے کی درخواستیں زیر سماعت ہیں۔ جمہوریت میں اکثریت کی رائے سے قانون سازی ہوتی ہے۔ کبھی کسی قانون کے بارے میں یہ نہیں کہا گیا کہ یہ قانون ایک ووٹ سے بنا یا زیادہ سے۔ وفاقی حکومت کے وکیل نے کہا کہ ایک ووٹ کی برتری سے بننے والا قانون بھی قانون ہوتا ہے۔ اگر 51% لوگ ووٹ ہی نہ ڈالیں تو بھی اسمبلی میں عوامی نمائندگی ہوگی؟ جمہوریت ہے ہی نمبرز گیم۔

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ پی ٹی آئی نے قومی اسمبلی سے استعفے کب دیے تھے؟ مخدوم علی خان نے بتایا کہ تحریک انصاف کے ایم این ایز نے گیارہ اپریل کو استعفے دیے تھے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ پی ٹی آئی کے استعفے قسطوں میں منظور کیے گئے۔ استعفوں کی تصدیق کے حوالے سے عدالتی فیصلے موجود ہیں۔ 

مخدوم علی خان نے کہا کہ استعفے منظور ہوچکے تو منظوری کیخلاف پی ٹی آئی عدالت چلی گئی۔ لاہور ہائیکورٹ نے 44 استعفوں کی منظوری پر حکم امتناع دیا ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ نے استعفوں کی منظوری کا سپیکر کا حکم معطل نہیں کیا۔ ہائیکورٹ کے مطابق سپیکر کا فیصلہ درخواست کیساتھ لگایا ہی نہیں گیا تھا۔ مخدوم علی خان نے کہا کہ تحریک انصاف کے 20 ارکان نے استعفے نہیں دیے تھے وہ اسمبلی کا حصہ ہیں۔ امریکی تاریخ دان نے کہا تھا کہ سیاسی سوال کبھی قانونی سوال نہیں بن سکتا۔ امریکی تاریخ دان کی بات پاکستان کے حوالے سے درست نہیں لگتی۔ امریکی سپریم کورٹ بھی کہہ چکی کہ عدالت سیاسی سوالات میں نہیں پڑے گی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ پاکستان میں بنیادی حقوق اور آئینی سوالات پر فیصلے ہوتے رہے۔ سیاسی سوال قانونی تب بنتا ہے جب سیاسی ادارے کمزور ہو جائیں۔ پی ٹی آئی نے خود ہی آرڈیننس لاکر نیب ترامیم ڈیزائن کی تھیں۔ اپنی ہی ڈیزائن کردہ ترامیم چیلنج کرنا بدنیتی ہے۔ سپریم کورٹ وطن پارٹی اور طاہرالقادری کیس نیت اچھی نہ ہونے پر خارج کر چکی ہے۔ سیاسی معاملات میں برطانیہ سمیت ملکوں میں عدالتی کارروائی لائیو کیمروں میں ریکارڈ ہوتی ہے۔ لائیو اسٹریمنگ سے آفیشل ریکارڈ رہتا ہے اور ابہام کی کوئی گنجائش نہیں بچتی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ عدالتی کارروئی کی براہ راست نشریات کا معاملہ ہمارے پاس زیر التوا ہے۔ جلد ہی فل کورٹ میں عدالتی کارروائی براہ راست دکھانے کا معاملہ رکھیں گے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ہر قانون عوامی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ عدالت کیسے تعین کرے گی کہ کونسا قانون زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ عوامی اہمیت کسی بھی قانون کو چیلنج کرنے کی بنیاد نہیں۔ عوامی اہمیت کی بنیاد پر قوانین کا جائزہ لیا تو درخواستوں کا سیلاب آئے گا۔ 

مخدوم علی خان نے کہا کہ کون سے مقدمات عوامی اہمیت کے ہیں آئین میں واضح نہیں۔ تحریک انصاف کو پہلے ہائیکورٹ سے رجوع کرنا چاہیے تھا۔ ہائیکورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں آتا تو عدالت کیلئے زیادہ مناسب ہوتا۔ 

چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ براہ راست سپریم کورٹ آنے سے ایک فریق کا اپیل کا حق ختم ہوجاتا ہے۔ بعض اوقات ایک صوبہ کسی قانون کو اچھا دوسرا برا کہتا ہے۔ ایسی صورتحال میں کوئی بھی عدالت سے رجوع کر سکتا ہے۔ 

جسٹس اعجازالاحسن نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ سپریم کورٹ خود تعین کرتی ہے کہ اس نے اپنا دائرہ اختیار استعمال کرنا ہے یا نہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ ماضی میں سپریم کورٹ ہائیکورٹس میں زیرالتواء مقدمات بھی منگواتی رہی ہے۔ 

مخدوم علی خان نے کہا کہ سپریم کورٹ کا چار رکنی بنچ کہہ چکا ہے کہ مقدمات منگوانے کا اختیار نہیں۔ سپریم کورٹ صرف مقدمات ایک سے دوسری ہائیکورٹ منتقل کر سکتی ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا آئین کسی ممبر کو منتخب ہونے کے بعد اسمبلی مدت مکمل کرنے کا پابند کرتا ہے؟ آئین کے تحت اگر اسمبلی رکن 40 دن تک بغیر اطلاع غیر حاضر رہے تو ڈی سیٹ ہو سکتا ہے۔ یہ پارلیمنٹ کی صوابدید ہے کہ ممبر کو ڈی سیٹ کرے یا نہیں۔ 

چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ تفصیل دیں آئینی خلاف ورزیوں پر نیب قانون کی شقوں کو سپریم کورٹ نے کب کب کالعدم قرار دیا۔ کیس کی سماعت 15 فروری تک ملتوی کردی گئی۔