عمران خان کی گرفتاری پر سینئر تجزیہ کاروں نے بھی رائے دیدی

عمران خان کی گرفتاری پر سینئر تجزیہ کاروں نے بھی رائے دیدی
کیپشن: Senior analysts also commented on the arrest of Imran Khan

ایک نیوز: چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کو توشہ خانہ فوجداری کیس میں 3 سال سزا سنائے جانے کے بعد لاہور میں ان کی رہائشگاہ سے گرفتار کرلیا گیا ہے۔

تفصیلات کے مطابق عمران خان کو 3 سال قید اور 1 لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی گئی ہے۔ جرمانے کی عدم ادائیگی کی صورت میں مزید 6 ماہ قید برداشت کرنے کا حکم سنایا گیا ہے۔ عمران خان کو 5 سال کے لیے نااہل بھی کردیا گیا ہے۔

عمران خان کی گرفتاری کے بعد اب ملک کے نامور سینئر ترین تجزیہ کاروں نے بھی اپنی رائے کا اظہار کیا ہے۔ 

مبشر لقمان:

سینئر تجزیہ کار مبشر لقمان نے اپنے بیان میں دلی دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اللہ کو کو اتنی اونچائی اور اتنی پستی نہ دکھائے۔ انہوں نے عمران خان کی حالت کو ان کے غرور کی سزا قرار دیا ہے۔ مبشر لقمان نے انکشاف کیا ہے کہ پی ٹی آئی کے جو رہنما کافی عرصے سے گمشدہ تھے وہ بھی اب زمان پارک سے مل جائیں گے۔ 

نصیر واہگہ:

نصیر واہگہ نے اپنے تجزیہ میں کہا کہ عمران خان کو کوٹ لکھپت جیل میں منتقل کرنے کی کوئی وجہ نہیں بنتی۔ پولیس نے اگر اپنے پاس بھی رکھنا ہو تو بھی کسی طور جیل میں لیجانا قانونی طور پر ٹھیک نہیں ہوگا۔ انہوں نے بھی عمران خان کو اسلام آباد ہی لیجانے کا امکان ظاہر کیا۔ 

سینئر اینکر اور تجزیہ کار علی حیدر:

علی حیدر نے کہا کہ اس مرتبہ مختلف چیز یہ ہوئی ہے کہ گرفتاری کے دوران کوئی مداخلت نہیں دیکھنے میں آئی۔ عمران خان کے اندر جو تبدیلی آئی ہے وہ بھی یہی ہے کہ جو انہوں نے پہلے جارحانہ انداز اپنا رکھا تھا اب وہ نہیں ہے۔ شاید ان کو اندازہ ہوچکا ہے کہ جارحانہ انداز کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ 

تجزیہ کار سلمان عابد:

سلمان عابد نے کہا کہ پہلے سے نظر آرہا تھا کہ فیصلہ عمران خان کے خلاف ہونا ہے۔ جج صاحب نے کیس میں معاملے میں جتنی تیز رفتاری دکھائی ہے اگر اعلیٰ عدالتیں ہر معاملے میں اتنی تیزرفتاری دکھائیں تو بہت سے معاملات درست ہوسکتے ہیں۔ عمران خان کے وکلاء کو تو اپنا مؤقف رکھنے کا موقع بھی نہیں دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ اب یہ معاملہ ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ میں چیلنج ہوگا تو ابھی قانونی جنگ بہت باقی ہے۔ 

منصور قاضی:

منصور قاضی نے کہا کہ بےشک یہ فیصلہ پی ٹی آئی کیلئے ایک دھچکا ہے۔ لیکن یہ یاد رکھنا چاہیے کہ پورے کیس کے دوران عمران خان صرف 2 یا 3 بار عدالت میں پیش ہوئے۔ اب پی ٹی آئی اس فیصلے کو مسترد کررہی ہے۔ تو یہ دیکھنا چاہیے کہ پیشی میں پی ٹی آئی وکلاء پیش نہیں ہورہے۔ عدالت کے ساتھ مذاق کیا جارہا ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ عمران خان کے وکیل آخر کیوں عدالت میں پیش نہیں ہوئے؟ کیوں کیس کو ٹھیک طرح نہیں پیش کیا گیا۔ پی ٹی آئی کا خیال تھا کہ پیش نہ ہونے سے کیس میں تاخیر ہوگی اور یہ آگے چلا جائے گا لیکن ایسا ہر بار نہیں ہوتا۔