پاک فوج کو نیب قانون سے استثنی کیوں دیا گیا ؟ سپریم کورٹ

پاک فوج کو نیب قانون سے استثنی کیوں دیا گیا ؟ سپریم کورٹ

ایک نیوز نیوز:سپریم کورٹ کے جسٹس منصور علی شاہ نے سابق وزیراعظم عمران خان کی نیب ترامیم سے متعلق درخواست پر دوران سماعت ریمارکس دئیے کہ پاک فوج کو نیب قانون سے استثنی کیوں دیا گیا ہے؟ سارا پیسہ اور کاروبار تو فوج کے پاس ہے۔ ملک میں سب سے بڑا کاروبار فوج کرتی ہے۔ کیا فوج احتساب سے بالاتر ہے؟  عمران خان نے فوج کے احتساب کا نقطہ درخواست میں کیوں نہیں اٹھایا ؟ ۔

تفصیلات کے مطابق  سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کیخلاف چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی درخواست پر سماعت ہوئی۔ 

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دئیے کہ  نئی ترامیم کے بعدملزم  نیب قانون سے بچ نکلنے پر دوسرے قانون میں پھنس جائے گا۔آپ کے دلائل سے ایسا لگتا ہے احتساب صرف نیب کر سکتا ہے۔ احتساب کیلئے دیگر ادارے بھی موجود ہیں۔

جسٹس اعجاز الااحسن نے ریمارکس دئیے کہ اختیارات کے ناجائز استعمال کا جرم کسی دوسرے قانون میں نہیں۔

عمران خان کے وکیل خواجہ حارث کا اپنے دلائل میں کہنا تھا کہ نیب ترامیم میں نجی افراد کو جرائم سے نکال دیا گیا ہے۔آمدن سے زائد اثاثہ جات کا کیس نیب کا ہے۔ اس جرم کی ہیت کو ترامیم سے  تبدیل کردیا گیا۔آمدن سے زائد اثاثہ جات پر اس وقت کاروائی ہوگی جب کرپشن ثابت ہو۔

اس موقع پر چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ آپ کہہ رہے کہ ترامیم سے کئی جرائم کو ڈی کریمینلائز کردیا گیا ہے۔ ریمانڈ کتنا ہو ضمانت کیسے ہوگی ان ترامیم پر آپکا اعتراض نہیں۔

خواجہ حارث نے کہا یہ اچھی ترامیم ہیں ان پر اعتراض نہیں۔

چیف جسٹس نے کہا آمدن سے زائد اثاثہ جات سمیت نیب قانون سے جرائم نکالے گئے۔کیا ان جرائم کیخلاف دوسرے قوانین موجود ہیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دئیے نیب ترامیم سے کون سے جرائم ختم کر دئیے گئے۔

خواجہ حارث نے کہا  آمدن سے زائد اثاثہ جات اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے  جرائم کو ختم کردیا گیا ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دئیے  نیب قانون میں آمدن سے زائد اثاثہ جات کاجرم آج بھی نیب قانون میں موجود ہے۔ کیا عدالت اب قانون کے ڈیزائن کا جائزہ بھی لے گی۔

خواجہ حارث نے کہا نیب ترامیم میں یہی تو کلرایبل ایکسرسائز ہوئی ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دئیے کہ  عدالت پارلیمنٹ کیساتھ چالاکی کو کیسے منسوب کر سکتی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا پاکستان جیسے ملک میں درست ٹیکس ریٹرنز جمع نہیں کرائے جاتے۔ اثاثوں کا آمدن سے محض زائد ہونا کافی نہیں۔ آمدن سے زاہد اثاثہ جات میں کرپشن یا بے ایمانی کا ہونا بھی ضروری ہے۔

اس موقع پر جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ  کل کو کوئی عدالت آکر کہیں کہ آمدن سے زائد اثاثہ جات پر پھانسی ہونی چاہیے۔ جرم ثابت کرنے کا بوجھ کس پر ہوگا اور بوجھ کتنا ہوگا۔یہ بحث عدالت نہیں پارلیمنٹ میں ہونی چاہیے۔نیب قانون کے مطابق ججز کو استثنیٰ نہیں ۔ ججز کے حوالے سے کوئی پردہ داری ہو تو علیحدہ بات ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے پی ٹی آئی وکیل سے مکالمہ کیا کہ آپ کو اپنے دلائل مکمل کرنے کیلئے مزید کتنا وقت درکار ہے ؟ جس پر خواجہ حارث نے کہا میں چار سماعتوں میں دلائل مکمل کر لوں گا۔

بعدازاں  سپریم کورٹ  نے نیب قانون میں حالیہ ترامیم کیخلاف تحریک انصاف کی درخواست پر مزید سماعت پیر تک ملتوی کردی۔