دور جدید میں افغان خواتین تعلیم سے محروم 

دور جدید میں افغان خواتین تعلیم سے محروم 
کیپشن: Afghan women are deprived of education in modern times

ایک نیوز: دور جدید میں افغان خواتین تعلیم سے محروم ہوگئی ہیں۔ طالبان حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد خواتین گھروں تک محدود ہو کر رہ گئیں۔ 

میڈیا رپورٹس کے مطابق ہزاروں افغان خواتین اور لڑکیاں تعلیم پر طالبان حکومت کی پابندی کو نظرانداز کرنے کے لیے آن لائن مطالعاتی پروگراموں کا رخ کر رہی ہیں۔

دسمبر 2022 میں اعلیٰ تعلیم پر پابندی میں توسیع کے بعد انٹرنیٹ پر مبنی کورس فراہم کرنے والے انگریزی زبان، سائنس اور کاروبار میں کورسز کی مانگ میں خاطر خواہ اضافہ ہوا۔ افغان خواتین دریافت کے خطرات، انٹرنیٹ کنیکٹیویٹی اور بجلی کی فراہمی کے چیلنجز کے باوجود تعلیم حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔

طالبان اسلامی قانون کی تشریح کا حوالہ دیتے ہوئے خواتین کی تعلیم پر پابندیوں کا جواز پیش کرتے ہیں۔ یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق تعلیم کی پابندی سے دس لاکھ سے زیادہ لڑکیاں متاثر ہوئی ہیں۔ 2022 کے گیلپ سروے کے مطابق افغانستان میں انٹرنیٹ تک رسائی بہت کم اور ناہموار ہے۔

یونیسیف رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صرف 6% خواتین تک انٹرنیٹ کی رسائی ہے اور دیہی علاقوں میں یہ تعداد محض 2% رہ گئی ہے۔

برطانیہ میں قائم آن لائن لرننگ پلیٹ فارم نے افغان خواتین کی تعلیم پر پابندی کے دوران 33 ہزار افغان طالب علموں کا اندراج کیا ہے، جن میں زیادہ تر خواتین ہیں۔

یونیورسٹی آف دی پیپل کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال 21 ہزار سے زائد افغان خواتین نے  ڈگری کورسز کے لیے درخواستیں دیں۔ فنانشل ٹائمز نے رپورٹ کیا کہ 2021 میں طالبان کے اقتدار میں واپسی کے بعد سےافغان خواتین کے لیے دنیا کی سب سے زیادہ جابرانہ حکومت قائم کی گئی۔ ابتدائی یقین دہانیوں کے باوجود  طالبان حکومت کی جانب سے خواتین کے حقوق پر سخت پابندیاں عائد کر دی گئیں۔ 

آن لائن یونیورسٹیاں، جیسے کہ عوامی یونیورسٹی، افغان طالبات کے لیے حفاظتی احتیاطی تدابیر اختیار کرتی ہیں جس میں خواتین اپنی شناخت بھی چھپا سکتی ہیں۔ طلباء کی شناخت کے تحفظ کا خاص خیال رکھا جاتا ہے اور کلاسوں میں جعلی شناخت کے استعمال کی بھی اجازت دی جاتی ہے۔

رپورٹ کے مطابق ان پابندیوں سے افغان لڑکے بھی اثر انداز ہوتے ہیں کیونکہ مرد اساتذہ کی تعداد کا بھی شدید فقدان ہے۔ طالبان حکومت کی جانب سے تعلیمی پابندیوں کو عالمی سطح پر اسلامی اسکالرز کی جانب سے مذمت کا سامنا ہے۔

سال 2022  میں معروف اسلامی سکالر مفتی تقی عثمانی نے طالبان چیف کو خط لکھا جس میں لڑکیوں کی تعلیم اور بند سکولوں کو کھولنے پر زور دیا گیا۔ یو این رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ طالبان حکومت کے بعد سے بین الاقوامی عطیہ دہندگان کے ساتھ چیلنجز میں اضافہ ہوا ہے، جن میں صحت، تعلیم اور زندگی کے بنیادی حالات شامل ہیں۔

سرکاری پابندی کے باوجود، افغانستان میں کچھ کمیونٹی اور زیر زمین اسکول خواتین کے لیے تعلیم فراہم کر رہی ہیں۔