ایک نیوز: اگست 2021 میں طالبان حکومت کی فعالی کے بعد افغان سرزمین صحافیوں اور میڈیا کارکنان پر تنگ ہوگئی۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق افغانستان میں طالبان حکومت کی جانب سے صحافتی تقاضوں کو پامال کیا جارہا ہے۔ صحافی برادری کے لیے افغان سرزمین پر حقائق تک رسائی اور معلومات کی فراہمی ایک کٹھن مرحلہ بن چکا ہے۔
شعبہ صحافت افغانستان میں ایک چیلنج بن چکا ہےجس میں صحافیوں کو جسمانی تشدد، گرفتاریوں اور دھمکیوں کا سامناکرنا پڑتا ہے۔ اپریل 2023 کے بعد سے خواتین صحافیوں پر مکمل پابندی عائد کردی گئی ہے۔
2021 میں افغانستان ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس میں 122 ویں نمبر پر تھا جو 2023 میں 156 ویں نمبر تک پہنچ گیا۔ اگست 2021 سے اب تک آزادی صحافت کی خلاف ورزیوں کے 245 مقدمات درج ہوچکے ہیں۔
2023 میں 2 صحافیوں کو مبینہ طور پر قتل اور درجنوں کو گرفتار کرلیا گیا۔ 7 جنوری 2023 کو افغانی نژاد فرانسیسی صحافی مرتضی بہبودی کو ناحق گرفتارکیا گیا جو اب تک زیر حراست ہیں۔
6 مارچ 2023 کو کابل میں سابق یونیورسٹی پروفیسر رسول عبدی کوغیر قانونی طور پر گرفتار کیا گیا۔ افغان طالبان حکومت میں آنے کے بعد سوشل میڈیا ایپس پر پابندی کا سلسلہ جاری ہے۔ سال 2022 میں افغانستان میں ٹک ٹاک اور ویڈیو گیمز کھیلنے پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔
طالبان حکومت نے جلد ہی فیس بک پر بھی پابندی لگانے کا عندیہ دے دیا ہے۔ مارچ 2023 میں یوٹیوب چینلز کے لیے ہدایات کے مطابق لائسنس حاصل کرنا لازم قرار دیا گیا ہے۔ طالبان حکومت نے چینل مالکان پر نئے بزنس ٹیکس بھی عائد کر دیئے گئے ہیں
انٹیلی جنس اہلکاروں کی جانب سے میڈیا ورکرز کے گھروں اور دفاتر پر چھاپے مارے جارہے ہیں۔ صحافیوں کو طالبان قیادت پر تنقیدی مواد شائع کرنے کی صورت میں گرفتاری اور لائسنس منسوخی کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ طالبان کی جانب سے متن کو نشر یا شائع کرنے سے قبل جائزہ لینے کی مشروط اجازت رکھی گئی۔
اگست 2021 سے اب تک تقریباً 40 فیصد صحافتی ادارے کام کرنا بند کر چکے ہیں جبکہ 60 فیصد اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ مارچ 2022 میں وائس آف امریکہ کی نشریات پر قومی پریس قوانین کی خلاف ورزی کے الزام کی مد میں پابندی لگائی گئی۔
اکتوبر 2022 میں پریس قوانین کی خلاف ورزی کے الزام میں دو افغان نیوز ویب سائٹس کو معطل کر دیا گیا۔ طالبان مخالف مواد شائع کرنے کی صورت میں غیر ملکی صحافیوں کو ہراسگی، دھمکیوں، ویزوں کی منسوخی اور افغانستان داخلے سے روکنے کے احکامات جاری کیے گئے۔
عالمی اداروں کو چائیے کہ افغانستان میں ذرائع ابلاغ کے استحصال کا نوٹس لیتے ہوئے عملی اقدامات کریں۔